|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2013

mama21حالیہ ہفتوں میں ایران نے پاکستانی بلوچستان کے خلاف زیادہ جارحانہ پالیسی اپنائی ہے خصوصاً ایران کے مسلح افواج اور سرحدی محافظین عام بلوچ شہریوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ سب کچھ سراوان شہر کے قریب ایک چھاپہ مار کارروائی کے بعد ہوا جس میں 14ایرانی سرحدی محافظین کو قتل کیا گیا اور پانچ دوسرے لوگوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ ایرانی حکومت نے اس واقعہ کے بعد زیادہ سخت گیر موقف اور پالیسی اپنائی ہے۔ اس نے اسی رات کو 14محصور بلوچ قیدیوں کو زاہدان کے جیل میں فوری طور پر پھانسی پر لٹکادیا۔ اس پر تاثر دیا گیا تھا کہ جیل سے نکل کر انہوں نے سرحدی محافظین کو قتل کیا اور واپس جیل آگئے تاکہ ان کو پھانسی کی سزا فوری طور پر دی جائے۔ حالانکہ ان کو دوسرے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا شاید ان میں سے بعض کو سزائیں بھی سنائی گئیں۔ لیکن ان کی پھانسی سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ ایران کی حکومت میں برداشت کا مادہ ختم ہوگیا ہے۔ وہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف بے رحمانہ کارروائی پر اتر آئی ہے۔ ان پھانسیوں نے ایران کی ساکھ کو دنیا بھر میں بہت متاثر کیا ہے کہ جلد بازی میں اس نے بلوچوں کو قید میں پھانسی دے دی اور اپنے خون کا بدلہ لے لیا۔ وہ بھی ان سے جو اس جرم میں شریک نہیں تھے۔ ریاست کی جانب سے بدلہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے جس کی مہذب دنیا حمایت نہیں کرسکتی۔ اطلاعات ہیں کہ سرحدی محافظین نے بہت سے شہری علاقوں پر حملے کئے ہیں۔ یہ تمام علاقے پاکستان کی سرزمین کا حصہ ہیں۔ اس طرح سے ایرانی افواج نے پاکستان کی سلامتی کو مجروح کیا ہے۔ حکومت بلوچستان اور خصوصاً وزیراعلیٰ نے اس پر ایک سے زائد بار احتجاج کیا ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مناسب فورم پر ایران کی اس جارحانہ پالیسی پر احتجاج کیا جائے تاکہ بلوچ سرزمین پر ایران کی در اندازی بند ہو۔ جس تنظیم نے سراوان میں چھاپہ مار کارروائی کی تھی وہ ایک غیر معروف گروہ ہے۔ اس کا پاکستانی بلوچستان میں کوئی اثر رسوخ نظر نہیں آیا۔ البتہ ایرانی اہلکاروں اور عوامی نمائندوں سے معلوم ہوا کہ وہ ایک امریکی امداد یافتہ گروہ ہے جس نے سراوان میں کارروائی کی تھی۔ یہ بات اس بلوچ آبادی کے لئے بالکل صحیح ہے جو ایران کے سرحدوں کے قریب رہتے ہیں۔ وہ سب پرامن لوگ ہیں اور کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ ایران جیسے طاقتور ملک کو جوابی کارروائی میں پرامن شہریوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ اس سے علاقے کے امن کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ایران نے حالیہ دنوں میں ماشکیل، زامران، بلیدہ، تمپ اور پنجگور پر راکٹ برسائے اور گولہ باری کی جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ یہ سب پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پر حملے تھے جس پر حکومت پاکستان کو یہ ہمت نہیں کہ اس پر احتجاج کرے اور ان حملوں کو روکے۔ ان حملوں میں بلوچ شہری، بشمول خواتین اور بچے نشانہ بن گئے جس سے اسلامی جمہوریہ کی ساکھ کو بین الاقوامی برادری میں نقصان پہنچا۔ اس سے قبل ذمہ دار ایرانی اہلکاروں نے یہ واضح دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر موقعہ مناسبت سے حملے کرتے رہیں گے۔ سرحد کے دونوں جانب بلوچ شہری دہشت گرد نہیں ہیں اور نہ ہی وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ بلوچ ہزاروں سالوں سے اپنی سرزمین پر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ پڑوسیوں کو کبھی بھی بلوچوں سے کوئی قابل ذکر شکایات نہیں رہی ہے دوسری جانب یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچ عوام دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی وجہ سے فائدے میں رہے ہیں اوران کو ضرورت کی اشیاء سستے داموں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ جب عوام فائدے میں رہیں گے وہ کیونکر تخریب کاری میں ملوث ہوں۔ ایران کی دو شکایت بالکل جائز ہیں کہ پاکستانی حکومت کی وجہ سے منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ منشیات کے خلاف جنگ میں ایران کے پانچ ہزار سے زائد فوجی اور پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ گزشتہ 30سالوں سے منشیات کے خلاف جنگ میں ایران کا کردار مثالی رہا ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان کے اہلکار اور سیاست دان منشیات کی اسمگلنگ کی زبردست طریقے سے پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ ایران کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھر کا 87فیصد منشیات ایران میں پکڑا گیا جبکہ پاکستان میں یہ کارروائی ایئر پورٹس پر محدود ہے جبکہ سرحدوں پر اسمگلروں کو کھلی چھٹی حاصل ہے اسی طرح سے انسانی اسمگلنگ وسط پنجاب سے شروع ہوتی ہے اور بلا روک ٹوک ایران کے سرحد تک پہنچ جاتی ہے۔ پورے سفر میں سینکڑوں چیک پوسٹ ہیں اور مجال کوئی سپاہی اس بس میں جھانک کر دیکھ لے۔ پنجاب سے گوادر، مند، تفتان اور ماشکیل آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ سرکاری سرپرستی میں سرحد عبور کرواتے ہیں۔ روزانہ ایران سینکڑوں کی تعداد میں پنجابیوں اور افغانیوں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرتا ہے۔ مجال ہے کہ حکومت پاکستان کوئی کارروائی کرے۔ دراصل یہ بہت بڑے بڑے مافیا ہیں۔ ان میں اعلیٰ سرکاری اہلکاروں، سرحدی محافظوں اور سیاستدانوں کا بڑا حصہ ہے۔ افغانستان کے جنگی سردار اور سیاستدان بھی اس میں ملوث ہیں۔ اس میں غریب بلوچ جو چرواہا اور کاشت کار یا گلہ بانی کرتا ہے اس میں ملوث نہیں ہے۔ نہ ہی وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ ایران کے خلاف تخریبی کارروائی کرے۔ ظاہر ہے سراوان پر حملہ غریب بلوچ نے نہیں کیا بلکہ اس میں تربیت یافتہ اور وسائل یافتہ گوریلا ملوث ہیں۔ شاید ان کو ڈرگ مافیا اور انسانی اسمگلروں کی حمایت حاصل ہو کہ ایران کو عدم استحکام سے دوچار کرے۔ یہ کام غریب بلوچ عوام کے ایجنڈے کا نہیں ہوسکتا۔ اس میں زیادہ طاقتور گروہ ملوث ہوسکتے ہیں۔