کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)پیپلز پارٹی کے رہنماء اور آ ئینی اصلا حات کی پارلیمانی کمیٹی کے چےئر مین سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اختیارات کی صوبوں کو منتقلی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے رویے سے وفاق کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ صوبوں کو دیئے گئے اختیارات واپس نہیں لئے جاسکتے۔ اسلام آباد میں بیٹھا ایک مائنڈ سیٹ اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسلام آباد کی سول اور ملٹری بیورو کریسی نے ہمیشہ صوبائی خود مختاری کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ اس سے وفاق کمزور اور پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ان خیا لات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں یو این ڈی پی اور محکمہ بین الصو بائی رابطہ کے زیر اہتمام اٹھارہویں ترمیم سے متعلق منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر رضا ربا نی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے قبل ایک خاص طبقے کی جانب سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ ایک مضبوط مرکز ہی مضبوط پاکستان کی ضما نت ہے جو سیاسی قوتیں صوبائی خود مختا ری کیلئے جدو جہد کر رہی تھیں پاکستان کی اشرافیہ ،اور سول و ملٹری بیروکریسی کہتی تھی کہ یہ قوتیں وفاق کو کمزو ر اورپاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں مگر ہم نے دیکھ لیا کہ صوبائی خودمختا ری کے بغیر پاکستان کمزورہو تا گیا ۔ رضا ربانی نے کہا کہ تیرسٹھ سال تک تعلیم، صحت ،سماجی بہبود کے شعبے وفاق کے پاس رہے اس دوران ان شعبوں میں کونسی بہتری آئی۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو اٹھارہویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو نا ہوگا۔ اٹھارہویں ترمیم وفاقی اکائیوں اور پاکستان کو مضبوط کرنے کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین ایک متفقہ آ ئین تھا مگر اس میں سول و ملٹری بیروکریسی کی مدا خلت سے بلاجواز ترامیم کی گئی جس کے باعث اس میں دی گئی صوبائی خود مختاری سفر ہو کر رہ گئی انہوں نے کہا کہ اسلام آ باد میں بیٹھا ایک سوچ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی نہیں چا ہتااٹھا رویں ترمیم کے بعد بھی صحت اور تعلیم کے شعبے دوبارہ وفاق کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں کسی ایک حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھرانا چا ہیے بلکہ میری اپنی حکومت بھی اس میں ملوث تھی۔ جبکہ مرکزیت والی مائنڈ سیٹ اور مالی مفادات بھی اختیار ات کی منتقلی میں رکاؤٹ کی بڑی وجوہات ہیں ۔ رضا ربانی نے مزید کہا کہ بلوچستا ن کی قوم پرست جما عتوں نے اٹھارویں ترمیم کو کامیاب کرانے میں سب سے اہم کردار ادا کیاجو اپنے سیاسی کیر یر اور زندگی کی رسک پر مذ اکرات میں بیٹھ کر اپنے موقف پر ڈٹی رہیں پھر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اٹھارویں ترمیم کو کامیاب کرا یا ۔انہوں نے مزید کہا کہ آ ئین کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 90دنوں میں طلب کر نا ضروری ہے مگر سی سی آ ئی کا آ خری اجلاس جولائی میں طلب کیا گیا تھا 90دنوں کے اندر سی سی آ ئی کا اجلاس طلب نہ کر کے آ ئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے آ ج حکومت پی آ ئی اے سمیت مختلف ادا روں کی نجکاری کی بات کرتی ہے مگر مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر حکومت ان اداروں کی نجکاری نہیں کر سکتی بد قسمتی سے ایک ایسی طرز حکو مت را ئج کر نے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں پارلیمان اور صوبوں کو بائی پاس کرکے تمام اختیارات وفاق کی ایک انتظامیہ کے پاس ہو ں گے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے قبل یہ باتیں کہی جاتی تھی کہ صوبوں میں اتنی چیزیں چلانے کی صلاحیت نہیں جو درست نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہمارے ہاں کبھی بھی اقتدار کی منتقلی جمہوری انداز میں اور پر امن طریقے سے نہیں ہو ئی مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد نہ صرف ایک جمہوری حکو مت نے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کو الیکشن ہارنے کے بعد جمہوری انداز میں منتقل کی بلکہ ایک آ رمی چیف کی ریٹائر منٹ پرنیا آ رمی چیف بھی مقرر کیا گیا اسی طرح تمام سٹیک ہو لڈر ز کو حصہ دار بنا کر الیکش کمیشن بنایا گیا ان چیزوں سے نہ صرف سسٹم مضبوط ہو ا بلکہ ادارے بھی مضبوط ہو ئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آ ئین کی حکمرنی ہو گی تووفاق چل سکے گا اب یہ ملک مزید کسی مہم جو ئی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ سیمینار کے شرکاء کے سوالات کا جواب دیتے ہو ئے رضا ربانی نے کہا کہ ہم اپنی خود داری اور سا لمیت کسی ڈونر کے پاس گروی نہیں رکھو ا سکتے اور نہ ہی ہم نے ڈونر کے کہنے پر چلنا ہے اگر ڈونر ز کے کہنے پر ہی چلنا ہے تو پھر آ ئین کو پھینک دیں سیا سی قوتوں نے یہ جدو جہد کیو ں کی ۔ ڈونر ز تو فوجی آ مر سے زیادہ خوش ہو تے ہیں ہم اپنے آ ئین اور رولز کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے ان کا کہنا تھا کہ ان ڈونر ز کو ہم نے ہی خراب کیاہم ان سے گاڑیاں اور لندن کی ٹکٹیں بھی لیتے ہیں ۔انہوں نے کہ کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب صوبے کے مسائل جمہوری جدوجہد اور مذاکرات کے ذریعے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں بار بار آئین توڑنے کا عمل دوہرایا گیا ، پرویز مشرف نے دو مرتبہ آئین شکنی کیاگر حکومت ان کے خلاف صرف دو ہزار سات میں آئین توڑنے پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کررہی ہے تو یہ حکومت کی صوابدیدہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان میں عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں بھی اچھی کارکردگی نہیں دکھاسکی تاہم یہاں پیپلز پارٹی تنظیم نو کے مراحل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے ملکی سلامتی کے خلاف ہیں اور یہ بند ہونے چاہئیں۔ نیٹو سپلائی بند کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے اس کے خلاف دھرنے دینا اور احتجاج کرنا درست نہیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر قانون عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم سے بہتری ضرور آئی ہے تاہم صوبوں کو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کے بہت سے مطالابت مانے گئے گئے مگر یہ کافی نہیں آ ج بھی قومیتیں تقسیم ہیں اگرچہ ہم کل کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن پر آ گئے لیکن آ ئین کو وفاقی اکائیوں کی مرضی سے مزید ٹھیک کر نا ہو گا ان کا کہنا تھا کہ آ ج اسرجنسی چل رہی ہے ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ ان سے بات کر سکے ۔انہو ں نے کہاکہ ہم ریاست کی با ؤنڈری میں ہی رہنا چاہتے ہیں مگر اپنی زبا نوں ، اپنی ثقافت اور حقوق کے ساتھ اداروں کی مضبوطی کیلئے وفاق کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ سیمنار سے نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر اسحاق بلوچ ، بین الصو بائی را بطہ ڈویژن اور اٹھا رویں ترمیم نفاذ کمیٹی کے سا بق سیکرٹری احمد محمود زاہد ، صوبائی محکمہ بین الصوبائی رابطہ کے سیکرٹری محمد علی کاکڑ نے بھی خطا ب کیا۔