16دسمبر 1971ء کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ عوام الناس کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ 16دسمبر کو پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد پاکستانیوں کوبین الاقوامی نشریاتی اداروں سے معلوم ہوا کہ پاکستان دو لخت ہوچکا ہے ،پورے مغربی پاکستان میں ماتم کا منظر تھا۔ بلوچ، سندھی اور پختون قوم پرست اور لبرل خیالات رکھنے والے افسردہ نظر آئے۔ مہاجروں کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ ان کا کیا بنے گا۔ بعض پنجابی دوست بنگال کو پاکستان پر ایک بوجھ سمجھ رہے تھے اور دبے الفاظ میں خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ بہرحال بھارت کے ہاتھوں فوجی شکست ان کے لئے سخت پریشانی کا باعث تھی اس لئے بھٹو کی حکومت پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ پہلے جنگی قیدی واپس لائے۔ چنانچہ بھٹو کو اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کرنا پڑا جس میں یہ شامل تھا کہ لائن آف کنٹرول، کشمیر ایک دو طرفہ مسئلہ ہے بین الاقوامی تنازعہ نہیں ہے۔ مستقبل کی پاکستانی حکومت اس کو بین الاقوامی اداروں، خصوصاً اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں نہیں اٹھائے گا۔ پاکستان بنگلہ دیش کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کرے گا اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ ان سخت شرائط کے ساتھ شملہ معاہدوں پر دستخط ہوگئے اور بعد میں جنگی قیدیوں کو رہائی ملی ۔جنگی قیدیوں کی واپسی کے بعد بھٹو نے یہ اعلان کیا کہ قوم کھاس کھائے گی اور ایٹم بم ضرور بنائے گی۔ فوج کو ایشیاء کی بہترین لڑنے والی مشین (fighting machine)بنائی جائی گی۔ ان تمام معاہدات کے بعد پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا بند ہوگیا اور پاکستانی حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کے بعد حکومت اور دائیں بازو کی پارٹیوں نے پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردیا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مغربی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بنگالیوں کے اہم ترین مطالبات ماننے کو تیار نہیں تھی۔ ان میں وسائل اور انتظامیہ پر مکمل کنٹرول، آبادی کی بنیاد پر ریاست کے تمام اداروں میں نمائندگی۔ ساتھ ہی ایوب خان کے خلاف احتجاج میں یہ ثابت ہوچکا تھا کہ مغربی پاکستان سے بنگال پر حکمرانی ممکن نہیں ہے، نہ ہی مغربی پاکستان اپنے وسائل بنگال کو دینے پر تیار ہے اور نہ ہی فوج میں بنگالیوں کو 56فیصد نمائندگی ملے گی، اس لئے یہ مغربی پاکستان کے سیاسی اور عسکری قیادت کا فیصلہ تھا کہ ’’بنگالیوں کو نکال باہر کیا جائے‘‘ ان کے لئے متحدہ پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ بنگالی اپنا الگ وطن بنائیں۔ اس سے قبل عسکری قیادت نے جسٹس منیر، سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک ایلچی کی حیثیت سے بنگالی لیڈر شپ کے پاس بھیجا اور ان کے سامنے یہ نکتہ رکھا کہ بنگالی پاکستان سے الگ ہوجائیں۔ بنگالیوں نے اس سے انکار کیا اور یہ کہا کہ ہم اکثریت میں ہیں، ہم کیوں الگ ہوجائیں، اقلیت (مغربی پاکستان) الگ ہوجائے۔ اس کے بعد بات ختم ہوگئی اور عسکری قیادت نے اپنا فیصلہ کردیا کہ بنگال میں آپریشن کیا جائے گا۔ مغربی پاکستان کے جو قوم پرست لیڈر ڈھاکہ میں موجود تھے، ان سے شیخ مجیب الرحمان نے کہا کہ آج رات کو فوج کارروائی شروع کررہی ہے، آپ لوگ واپس جائیں۔ ان میں ولی خان، بزنجو، میاں ممتاز دولتانہ اور شاہ احمد نورانی شامل تھے۔ جب یہ حضرات کراچی ائیر پورٹ پر اترے تو ان کا یہ کہناتھا کہ پاکستان ٹوٹ چکا ہے۔ بنگال میں لڑائی شروع ہوگئی ہے یہ 26مارچ 1972ء کا واقعہ ہے۔