|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2013

بلوچستان میں تین بڑے بجلی گھر حب، اوچ اور کوئٹہ میں قائم ہیں اور بجلی پیدا کررہے ہیں مگر ان بجلی گھروں سے بلوچستان کے لوگ مستفید نہیں ہورہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ واپڈا ان سے بجلی خریدتی ہے اور قومی گرڈ میں ڈال دیتی ہے اور بلوچستان کو گڈو تھرمل پاور ہاؤس سے بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ ہنگامی صورت حال میں صرف حبیب اللہ کوسٹل پاور سے کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں بجلی سپلائی کی جاتی ہے۔ وہ بھی چند گھنٹوں کے لئے۔ بلوچستان کو صرف 600میگا واٹ فراہم کیا جاتا ہے اور اس کی ضرورت تقریباً 16سو میگاواٹ ہے۔ اس کمی کے باعث پورے بلوچستان میں شدید لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے اور بعض علاقوں میں یہ لوڈ شیڈنگ 20گھنٹے کا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں بجلی کی ضروریات کا کسی کو ادراک نہیں ہے۔ بلوچستان ایک نظر انداز صوبہ ہے اس کے مسائل سے کسی بھی حاکم کو کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جارہا ہے۔ گزشتہ حکومت نے کوریا کے ایک کمپنی کے ساتھ سولر پاور پروجیکٹ پر بات چیت شروع کی تھی اور ابتدائی معاملات ان سے طے ہوگئے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس کمپنی سے باقاعدہ معاہدہ کیا جس کے تحت 300میگاواٹ بجلی سولر پاور سے حاصل کی جائے گی۔ صوبائی حکومت کا یہ قدم قابل تعریف ہے کہ اس نے 300میگاواٹ کا بجلی گھر قائم کر رہا ہے اور آئندہ چند سالوں میں یہ مکمل ہوگا اور کسی حد تک صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی ہوگی۔ دوسرا منصوبہ کوئلہ سے بجلی حاصل کرنے کا ہے اس میں وفاق اور پنجاب حکومت کی دلچسپی ہے۔ اس پر ناقدین کو اعتراض ہے کہ بجلی اور منافع پنجاب کے لئے ہوگا اور کوئلہ سے آلودگی بلوچستان کے حصے میں آئے گی۔ اس لئے کوئلہ سے چلنے والے تمام بجلی گھر وسطی پنجاب میں منتقل کئے جائیں کیونکہ ان کو بلوچستان سے زیادہ بجلی کی ضرورت ہے اورتو وہ بجلی کے ساتھ ساتھ وہ آلودگی بھی ساتھ لے جائیں جو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے بعد پھیلتی ہے، اس کو بلوچستان کے لئے مختص نہ کریں۔ ہر باشعور شخص بلوچستان کے لئے سولر بجلی گھر کی حمایت کرے گا کیونکہ بلوچستان ایک وسیع اور عریض خطہ ہے جہاں پر پاور ٹرانسمیشن لائن لے جانا مشکل کام ہے اور اس پر اخراجات بھی زیادہ آتے ہیں اس لئے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور دیہاتوں میں Roof Top Solutionہی کافی ہے۔ یعنی چھت پر ایک پینل لگائیں اور پورا گھر روشن۔ نہ لوڈشیڈنگ اور نہ Line Losses۔ بلوچستان حکومت ایک 20سالہ منصوبہ بنائے جس کے تحت گھر گھر کو بجلی پہنچائی جائے ورنہ دوسری صورت میں بلوچستان بجلی کی سہولت سے محروم رہے گا۔ بلوچستان میں کوئلہ کے ذخائر بہت ہیں مگر اس میں بھی ٹرانسمیشن لائن اور اس کے نقصانات بہت ہوں گے۔ اسی طرح قدرتی گیس سے بھی بجلی گھر قائم کیے جاسکتے ہیں۔ مگر اولیت سولر انرجی کو دی جائے کیونکہ یہ کم خرچ ہے اور چھوٹے چھوٹے اور دور دراز علاقوں اور گاؤں کو بجلی پہنچانا بہت زیادہ آسان اور سستا ہوگا اس کی دیکھ بھال بھی آسان ہوگی۔