کوئٹہ(آن لائن)وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف تنظیم کے زیراہتمام وائس چیئرمین ماماعبدالقدیربلوچ کی قیادت میں شروع ہونے والا لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی اور اب کراچی سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا ہے جسے ٹھٹھہ کے بعد سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی اگر لانگ مارچ کے شرکاء کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ داری اس علاقے کے وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری ،آئی جی اور ایس ایس پی سمیت ڈی ایس پی اور ایس ایچ او پر عائد ہوگی یہ بات انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے آج صبح مجھ سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ ٹھٹھہ کے قریب جب پہنچے تو ہمارے پاس کوئی سیکورٹی نہیں تھی جس کے بعد میں نے ڈی آئی جی سندھ سے رابطہ کیا اور پھر مجھے ایس ایس پی ٹھٹھہ نے فون کرکے ابھی اطلاع دی ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو پولیس کا سکوارڈ فراہم کردیا ہے اور رات کے وقت بھی ان کے پاس سات سے آٹھ اہلکار موجود ہوں گے انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لانگ مارچ کے شرکاء کو سیکورٹی کے حوالے سے ہم نے سپریم کورٹ کے کراچی بینچ میں درخواست دائر کی تھی جس پر چیف جسٹس نے سندھ حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ لانگ مارچ کے شرکاء کو مکمل سیکورٹی فراہم کریں لیکن بعد میں سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی جس سے ہمیں خدشہ ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کوکوئی نقصان نہ پہنچنے کیونکہ لانگ کرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیراہتمام لاپتہ افراد کے اہلخانہ انصاف کے حصول اور اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ہزاروں کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرکے اذیتیں برداشت کررہے ہیں تاکہ باضمیر لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا جاسکے انہوں نے کہا کہ آج بھی بلوچ نسل کشی جاری ہے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں نے بھی اس سلسلے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے اس لئے ہم ان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنی خاموشی کو توڑیں انہوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی وصوبائی حکومت سے ہمیں امید تھی کہ وہ اس مسئلے کوحل کریں گی کیونکہ وہ اپوزیشن میں رہ کر دعوے کرتی تھیں کہ لاپتہ افراد کامسئلہ حل کریں گے لیکن گزشتہ دنوں نصیرآباد میں فوجی آپریشن کے بعد جو چار لاشیں ملیں انہیں ڈیڑھ ماہ قبل کراچی کی سبزی منڈی سے اٹھایا گیا تھا اور چار دسمبر کو ڈیرہ بگٹی سے تین افراد کو اغواء کیاگیا ہے ہمیں خدشہ ہے کہ ان کی بھی لاشیں نہ ملیں اس لئے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردارادا کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ ماما قدیر کا کہنا ہے کہ ہمیں نامعلوم نمبروں سے فون کرکے لانگ مارچ کوختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اسے ختم نہ کیا تو ہمیں نقصان پہنچایاجائے گا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سندھ کے علاقے میں سندھی قوم پرستوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاء کی پذیرائی کرنے اور ان کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں اور پنجاب کے عوام اور سول سوسائٹی سمیت دیگر جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لانگ مارچ کے شرکاء کو پنجاب میں پہنچنے پر ان کا ساتھ دیں تاکہ ہمارے پیاروں کی جلد بازیابی ممکن ہوسکے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج جب سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی تو پولیس حکام نے ہمیں بتایا تھا کہ وہاں پر ہماری حدود ختم ہوگئی تھی اس لئے سیکورٹی نہیں ملی ہم نے انہیں بتایا ہے کہ آج کا فرض ہے کہ جہاں آپ کی سیکورٹی ختم ہو وہاں آپ متعلقہ علاقے کے آفیسران کو سیکورٹی کے حوالے سے آگاہ کریں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد 40کے قریب ہے جس میں خواتین بچے اور مرد شامل ہیں۔