توقع کے مطابق طالبان اور ان کے اہم ترین رہنماؤں نے فوری طور پر حکومت کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کو رد کردیا اور الزام لگایا کہ حکومت طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی تیاری کررہی ہے۔ اس سے قبل قومی سلامتی پر کابینہ کی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ قوت کا استعمال حکومت کا آخری آپشن ہوگا۔ حکومت طالبان سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔ کابینہ کمیٹی نے کئی ایک فیصلے بھی کئے جس میں فاٹا میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنا اور مغربی سرحدوں پر سیکورٹی کو زیادہ مضبوط بنانا اور انتہا پسندی، مذہبی جنون کو روکنا شامل تھے۔ چند ہی گھنٹوں بعد طالبان کا سخت موقف سامنے آیا۔ ملا فضل اللہ سے منسوب بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کرنا بے معنی ہے کیونکہ حکومت طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا منصوبہ بنارہی ہے۔ طالبان کی جانب سے یہ بھی اعلان سامنے آیا کہ وہ حکومت کے خلاف مسلح حملے تیز کریں گے اور ملک میں شرعی نظام نافذ کریں گے۔طالبان کے ان اعلانات نے حکومت پاکستان کو خطرناک حالات سے دوچار کردیا ہے۔ مسلم لیگ اور ان کے رہنماؤں کا اسلامی انتہا پسندوں سے متعلق نرم گوشہ رہا ہے۔ تمام تر سیاسی اور سماجی حلقوں کی مخالفت کے باوجود حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے پر بضد تھی اور آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے ایماء پر یہ متفقہ فیصلہ ہوا کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں حالانکہ طالبان، جمہوریت، جمہوری اداروں، آئین، حکومت کو غیر شرعی سمجھتے ہیں اور برملا اس کا اعلان بھی کرر ہے ہیں کہ وہ اس پورے نظام کو الٹ دیں گے وہ بھی طاقت کے بل بوتے پر اور اپنی مرضی کا شرعی نظام لائیں گے۔ حکومت اور حکومتی اداروں کو وہ امریکہ کا غلام سمجھتے ہیں اور پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک تسلیم نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں مسلح افواج کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ وہ طالبان انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کرے۔ ان کے کمانڈ اور کنٹرول کو تباہ کرے۔ ان کے تربیت کی سہولیات پر حملے کرے تاکہ وہ پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف کوئی خطرہ نہ ہوں۔ سب سے پہلے ان لوگوں کا محاسبہ کیا جائے جو طالبان کو وسائل مہیا کررہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ملا فضل اللہ افغانستان کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔ اس کو افغانستان نے پناہ دی اور امریکی افواج نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ حکومت پاکستان نے ان کی افغانستان موجودگی پر احتجاج بھی کیا تھا اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔ ظاہر ہے وہ پاکستان کے خلاف جنگ میں ہر حربہ استعمال کریں گے تاکہ پاکستان میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو اور عوام الناس حکومت اور سیکورٹی اداروں سے بد دل ہوجائیں۔ اس لئے اس سے قبل طالبان کی مکمل شکست پاکستانی ریاست کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔