|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2013

imagesکوئٹہ( خ ن) : وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے محکمہ تعلیم کی موجودہ صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بہتر بنانے کے لیے فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کرنے کی سختی سے ہدایت کی ہے، یہ بات انہوں نے جمعہ کے روز محکمہ تعلیم کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ کے موقع پر کہی جس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اساتذہ کی اٹیچمنٹ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا، اس موقع پر اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گذشتہ 10سالوں میں محکمہ تعلیم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا ہے، بہت سے علاقوں میں مڈل سکول کے لیے طلبہ نہیں وہاں کالج بنا کر فنڈز کو ضائع کیا گیا ، کئی کالجوں میں ایک مضمون کے 15لیکچرارز ہیں اور کہیں کالجوں میں ایک لیکچرار بھی نہیں اور اکثر بڑے کالجوں میں ہاسٹل، پینے کے پانی، بجلی کی سہولت تک میسر نہیں، تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لیے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جائیگا، اس موقع پر سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ زہری ، صوبائی مشیر تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ، صوبائی وزیراطلاعات عبدالرحیم زیارتوال ، صوبائی وزیر ریونیو جعفر خان مندوخیل، صوبائی مشیر لائیو اسٹاک عبید اللہ بابت، ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی قدوس بزنجو، رکن صوبائی اسمبلی طاہر محمود، ایڈیشنل چیف سیکریٹری (ترقیات) اسلم شاکر بلوچ، سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن، عبدالرحمان بزدار، سیکریٹری سیکنڈری ایجوکیشن غلام علی بلوچ، سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو علی احمد مینگل و دیگر حکام بھی موجود تھے، اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ بدقسمتی سے گذشتہ 10سالوں میں محکمہ تعلیم اور صوبے کے تعلیمی نظام کو مفلوج بنا کر رکھ دیا گیا ہے، بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کئے جانے والے ایس ایس ٹی (SST)کی پوسٹوں پر تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر جے ای ٹی (JET)، ڈارئنگ ٹیچر بھرتی کئے گئے، کالجوں کے قیام کے لیے تمام لوازمات و قواعد و ضوابط کے برعکس فیصلے کئے گئے ، بہت سے علاقوں میں مڈل سکول تک نہیں وہاں کالج قائم کئے گئے۔ جبکہ صوبے کے بڑے کالج جہاں ہزاروں طالبعلم موجود ہیں ان کی بنیادی ضروریات، اساتذہ کی کمی سمیت ہاسٹل، پانی، بجلی و دیگر ضروریات کو پورا نہیں کیا گیا، اس موقع پر طے پایا کہ اساتذہ کی حاضری اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نظام وضع کیا جائیگا، اجلاس نے ہدایت کی کہ جن کالجوں میں طالب علم نہیں انہیں بند کر کے ڈویژنل اور ضلعی کالجوں میں سہولیات کو بہتر بنایا جائے، وسائل کے ضیاع کو اب برداشت نہیں کیا جائیگا۔ اجلاس نے امتحانی نظام اور طریقہ کار پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نقل کے خاتمے کے لیے انسپکشن ٹیموں کی بجائے سی سی ٹی وی (CC TV) کیمرے امتحانی مراکز میں نصب کئے جائیں اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، اجلاس کو بتایا کہ حکومت تعلیمی شعبے میں موثر ریفارمز لا رہی ہے اور محکمہ تعلیم کے افسران کو بھی اپنا رویہ تبدیل کر کے کارکردگی دکھانی ہوگی، اجلاس نے بورڈ آف انٹر میڈیٹ کی برانچوں کو مزید اختیارات دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ طلباء کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، اور جہاں ضرورت سے زیادہ اسٹاف ہے انہیں خالی پوسٹوں پر تعینات کیا جائے، اجلاس نے ہدایت کی کہ بلوچستان ریذیڈنشل کالجوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کئے جائیں ،مستونگ کیڈٹ کالج کے گرتے ہوئے تعلیمی معیار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ جو تعلیمی ادارہ بلوچستان میں تعلیمی حوالے سے مثالی تھا اس کے طلباء اب فیل ہو رہے ہیں ، اس سلسلے میں ہدایت کی گئی کہ کیڈٹ کالجز کے مسئلے کو وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایا جائے اور ان میں جلد از جلد تعلیمی سرگرمیاں شروع کی جائیں، جبکہ لیکچرارز اور اساتذہ کی بھرتیوں میں زونل سطح پر مقامی لوگوں کی بھرتی کو ترجیح دی جائے، ٹیکنیکل ایجوکیشن سے متعلق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس میں جدت لاتے ہوئے افرادی قوت کی بجائے جدید تقاضوں کے مطابق آئی ٹی اور پروجیکٹرز پر لیکچرکا بندوبست کیا جائے اور اسے مارکیٹ کے موجودہ رحجان کی ضرورت کے مطابق بنایا جائے، اجلاس نے خضدار اور تربت پولی ٹیکنیکل کالجز کو جلد مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی، اجلاس نے ہدایت کی کہ وزیر اعظم کے کوالٹی ایجوکیشن پروگرام کے طالب علموں کی فیسوں کی ادائیگی میں تاخیر کا مسئلہ اٹھایا جائے، اجلاس نے انڈومنٹ فنڈز کے استعمال میں تاخیر پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا، اجلاس نے ہدایت کی کہ بلوچستان کے اضلاع میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء و طالبات میں انعامات کی تقسیم کی تقریب پروقار طریقہ سے منعقد کر کے پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں کی عزت اور حوصلہ افزائی کی جائے، اجلاس نے بیرون صوبہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو پوزیشن حاصل کرنے کی صورت میں انعام دینے اور ان کی مناسب حوصلہ افزائی کرنے کی ہدایت کی، اجلاس نے ہدایت کی کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے ماہرین کو پروجیکٹ میں تعینات کرنے کی بجائے کالجوں میں تعینات کیا جائے، اجلاس نے ہدایت کی کہ کالجوں میں کھیلوں اور طالب علموں کے تفریحی پروگراموں کے لیے رقم مختص کی جائے۔