گزشتہ کئی سالوں سے مقتدرہ نے لیاری کے تمام علاقوں سے پولیس کو حساس علاقوں سے واپس بلالیا ہے اور ان کی نقل و حرکت کو پولیس تھانوں میں محدود کردیا گیا ہے۔ اس طرح سے لیاری کے تمام علاقوں کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا گیا ہے جو آپس کی جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ یہ جرائم پیشہ افراد اغواء برائے تاوان، بھتہ کی وصولی، ہر طرح کے اڈے، خصوصاً جوئے، سٹے، منشیات اور اسلحہ کی فروخت کے اڈے چلارہے ہیں مجال ہے کہ پولیس یا رینجرز ان کے مکروہ روزگار پر ہاتھ ڈالے یا ان اڈوں کا خاتمہ کردے۔ آج یہ جرائم پیشہ افراد ایک دوسرے کے کارندوں کو اغواء کررہے ہیں۔ قید میں ان کو اذیتیں دے رہے ہیں اور آخر میں ان کو گولیاں مار کر قتل کررہے ہیں اور لاش کو عوام الناس میں خوف پھیلانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت اس طرح کا کوئی حکم صادر کرسکتی ہے کہ پولیس جرائم پیشہ افراد کے معاملات میں مداخلت کرے۔ لیاری پی پی پی کا حلقہ انتخاب ہے 1970ء سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری یہاں سے ہی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں یہ پی پی کا حلقہ انتخاب رہا ہے۔ اس لئے سندھ حکومت یہ جرات نہیں کرسکتی کہ اپنے ووٹروں کے ساتھ اس طرح کا ظالمانہ سلوک روا رکھے۔ یہ حکم کس نے دیا ہے؟ جرائم پیشہ افراد کو اسلحہ اور گولیاں کون سپلائی کررہا ہے۔ دونوں فریقین کے پاس اسلحہ اور گولیوں کی کمی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ بازار سے خرید رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کون سے عناصر ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کررہے ہیں اور ریاستی اداروں کو منع کررہے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ کم سے کم یہ پی پی پی کی سندھ حکومت نہیں ہوسکتی۔ کوئی زیادہ طاقتور لوگ ہوں گے۔ روزانہ چار پانچ افراد قتل ہورہے ہیں۔ آئے دن مارٹر گولے اور راکٹ لوگوں کے گھروں میں گررہے ہیں۔ دوسری جانب جرائم پیشہ شریف لوگوں کے گھروں پر قبضہ کررہے ہیں لوگوں کو اغواء کررہے ہیں اور لاکھوں روپے تاوان طلب کررہے ہیں۔ تاوان ادا نہ کرنے کی صورت میں مغویوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ ریڑھی والوں سے بھی بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ روزگار تباہ ہوچکا ہے۔ دکانیں بند، ریڑھیاں سڑکوں سے غائب۔ سڑکوں پر صرف اور صرف جرائم پیشہ افراد کا راج ہے۔ ان کی مرضی ہے کہ کس کو قتل کریں، کس کو لوٹ لیں، کس کو اغواء کریں، کس کے مکان پر قبضہ کریں۔ یہ جرائم پیشہ افراد کی مرضی ہے۔ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ پولیس اور رینجرز لوگوں کے ساتھ آنکھ مچولی کررہے ہیں۔ سارا دن اور ساری رات فائرنگ ہوتی ہے۔ سڑکوں پر بندوق برداروں کا راج ہے پولیس اور رینجرز کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ شاید امن و امان کا قیام ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے وہ صرف گشت پر مامور ہیں اور وہ جرائم پیشہ کے معاملات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہر گلی اور ہر سڑک پر بندوق بردار نظر آتے ہیں اور رینجرز کے اہلکار صرف گشت پر مامور ہیں اور لوگوں کو صرف اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں مگر امن و امان بحال کرنے سے قاصر ہیں۔ شاید یہ بات ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مقتدرہ نے ردعمل میں لیاری کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے اس وقت کیا جب نواب بگٹی کو شہید کیا گیا تھا اور لیاری میں چھ دنوں تک مظاہرے ہوئے۔ 2006ء سے لے کر آج تک ریاست اپنے ہی شہریوں سے بدلے لے رہی ہے۔ مقتدرہ کو گینگ وار کا ڈرامہ ختم کرنا پڑے گا اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی۔ موجودہ طرز کی کارروائیوں سے لوگوں کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ ریاست کی شکستہ ذہنیت ہے ،وہ دوسرے رائے کو برداشت نہیں کرسکتی، یہی وجہ ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔