|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2013

آئے دن ایرانی سرحدی محافظ پاکستان کی سرزمین پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں کو ہلاک اور املاک کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں دہشت گردوں نے ایرانی مسلح دستوں پر حملہ کیا تھا اور سراوان میں 15سرحدی محافظین ہلاک اور پانچ کو یرغمال بنالیا تھا۔ ایرانی حکام نے بر سر عام یہ الزامات لگائے کہ اس میں امریکہ اور پاکستانی حکومت ملوث ہے۔ پاکستانی حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ عام بلوچ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کو قتل کیا گیا اور ان کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا، گو کہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا وہ صرف معصوم شہری تھے اور ان کا جرم یہ تھا کہ وہ سرحدی علاقے میں رہتے ہیں۔ پہلے تو ایران کی کاروائی غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی تھی کیونکہ عام اور نہتے شہری سراوان کے حملے میں ملوث نہیں تھے۔ایک چھوٹا سا گروہ ایک کارروائی کرتا ہے تو ریاست ان کا پتہ چلائے اور ان کو گرفتار کرے نہ کہ عام بلوچ شہریوں کو جو سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جائے۔ ایران کی حکومت ایسی تمام غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیاں بند کردینی چاہئیں۔ دوسری جانب حکومت پاکستان ہے جو ان واقعات میں ایک تماش بین کا کردار ادا کررہا ہے وہ ایران کے خلاف کوئی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا حالانکہ ایران نے پاکستان کی سلامتی پر حملہ کیا ہے اس کی افواج کئی بار پاکستانی سرزمین میں داخل ہوئیں ہیں اور انہوں نے پاکستانی شہریوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ حکومت پاکستان نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے، نہ سفارتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ایران سے فوجی مداخلت کے خلاف احتجاج کیا ہے نہ ہی لوگوں کے تحفظ کے لیے سیکورٹی بڑھادی ہے تاکہ ایران کو واضح پیغام جائے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر مداخلت برداشت نہیں کرتا۔ دوسری جانب جب ایسے واقعات بھارت کی جانب سے پنجاب اور کشمیر میں ہوتے ہیں اور بھارتی فوجی شہری آبادی پر بم گراتی ہے اور مارٹر گولے فائر ہوتے ہیں تو حکومت پاکستان آسمان سر پر اٹھالیتی ہے جیسے قیامت آیا ہو۔ سرکاری ٹی وی کی فوٹیج تمام نیوز چینلوں کو فراہم کی جاتی ہیں اور رات دن بھارت کے خلاف زبردست پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی ہے مگر جب اسی قسم واقعات بلوچ سرزمین پر ہوتے ہیں اور ایران یہ تسلیم کرتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ وہ پاکستانی بلوچستان میں فوج استعمال کرے گا کیونکہ ان کے سرحدوں کو خطرات لاحق ہیں۔ حکومت اور اس کے ادارے مجرمانہ طور پر خاموش رہتے ہیں کیونکہ یہ سب کام ناپسندیدہ بلوچ عوام کے خلاف ہوا ہے اور پاکستان کی حکومت ان تمام جارحانہ کارروائیوں کو نظر انداز کرتا ہے اور اپنے رویے سے یہ جتلاتا ہے جیسے بلوچ اس کے شہری نہیں۔ پاکستان صرف اور صرف پنجاب اور کشمیر کا نام ہے بلوچستان اس میں شامل نہیں ہے۔ یہ معاندانہ رویہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے ایک زہر قاتل بن سکتا ہے۔ اس لئے اس میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے کہ ایران پر واضح کیا جائے کہ بلوچ عوام اور بلوچ سرزمین پر جارحانہ حملے اور کارروائیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ اگرچہ اس کا منہ توڑ جواب نہیں دیا جائے گا مگر سفارتی ذرائع کے ذریعے سخت احتجاج کیا جائے گا اور بین الاقوامی رائے عامہ کو آگاہ کیا جائے گا کہ ایران بلوچ عوام کے خلاف معاندانہ کارروائیاں کررہا ہے۔ گو کہ مجموعی طور پر بلوچ شہری کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ البتہ وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرنے کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ ایران اور پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق طلب کررہے ہیں۔ ایران میں تو بلوچ احتجاج تک نہیں کررہے ہیں جبکہ پاکستان یہ احتجاج ہر سطح پر جاری ہے۔ پارلیمان کے اندر اور پارلیمان کے باہر بھی۔