|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2013

کشمیر (آزادی نیوز)بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بھارتی فوج نے فرضی جھڑپ میں ملوث دو افسروں سمیت چھ فوجی اہلکاروں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جموں کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ترجمان کرنل کالیا کے مطابق فوج نے ایک کرنل سمیت چھ فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ تین سال قبل کشمیر میں ہونے والی ایک فرضی جھڑپ کی فوجی سطح پر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔یہ تصادم اپریل سنہ دو ہزار دس کے آخری ہفتے میں شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں ماڑھیل گاؤں میں ہوا، جس میں تین مزدوروں کا قتل کیا گیا تھا۔ مقامی پولیس نے اس واقعہ کی تفتیش میں فوج کے لیے کام کرنے والے دو کشمیریوں اور نو فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔فوج کے ایک سینیئر افسر برگیڈیئر سانگا نے فوجی سطح پر ہونے والی الگ تفتیش کی قیادت کی۔ کرنل کالیا نے بتایا: ’فوج چاہتی ہے کہ لوگوں کو فوری انصاف ملے اور یہ فیصلہ ہمارے اسی جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔‘ \”فوج چاہتی ہے کہ لوگوں کو فوری انصاف ملے اور یہ فیصلہ ہمارے اسی جذبے کو ظاہر کرتا ہے\” کرنل کالیا، بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ترجمان۔یاد رہے کہ ایک علیحدہ واقعے میں سن دو ہزار میں جب امریکی صدر بل کلنٹن بھارت آئے تو ان کی آمد سے ذرا قبل جنوبی کشمیر میں پینتیس سکھ شہریوں کا قتل ہوا تھا۔ اس کے بعد فوج نے پتھری بل کے مقام پر ایک تصادم کا دعویٰ کیا اور کہا کہ سکھوں کے قتل میں ملوث پاکستانی شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں سرکاری تحقیات سے پتہ چلا کہ وہ عام شہری تھے جنہیں ان کے گھروں میں ہی زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہ دوسرا معاملہ بھی کئی عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے جب بھارتی سپریم کورٹ پہنچا تو فوج کو حکم دیا گیا کہ مقررہ وقت کے اندر اس کی تفتیش کی جائے۔ یہ تفتیش اب بھی جاری ہے، لیکن اس تحقیقات سے متعلق افسران جموں کے اْدھمپور ضلع میں مقیم ہیں۔ فوجی اہلکاروں کو فرضی تصادم میں ملوث قرار دینے کے بعد ان کے خلاف کورٹ مارشل کا اعلان معنی خیز ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ فوج انتہائی رازداری سے کام لے کر شکوک و شبہات میں اضافہ کرتی ہے۔ کولیشن آف سول سوسائٹیز کے ترجمان خرم پرویز کہتے ہیں: \’مسئلہ اعلان کا نہیں انصاف کا ہے۔ یہ لوگ کہنے کو تو کیس درج کرتے ہیں، لیکن لوگوں کو بتایا جائے انہوں نے اپنی چارج شیٹ میں کیا لکھا ہے۔ اور نو میں سے صرف چھہ فوجیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی کیا منطق ہے۔‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سنہ 2010 میں جب ماڑھیل گاؤں میں ہوئے اس تصادم کا راز افشا ہوا تو کشمیر میں طویل احتجاجی تحریک چلی جسے دبانے کے دوران پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ ان کاروائیوں میں 120 سے زائد نوجوان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ ہزاروں کم سن لڑکوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ چوبیس سالہ شورش کے دوران دس ہزار افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔ کشمیر میں چھہ ہزار سے زائد گمنام قبروں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ فوج فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کو ہلاک کرکے ان ہی قبروں میں دفن کرتی تھی۔