گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے گیس کمپنی کے حکام کے رویے سے تنگ آکر کہا کہ گیس کمپنی کا رویہ بلوچ عوام کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہے یعنی وہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے اور یہاں کے عوام کو کوئی سہولت دینے کو تیار نہیں ۔ وزیر اعلیٰ کی بات سو فیصد درست ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس شدید ترین سردی میں بلوچستان کے عوام کو گیس نہیں مل رہی جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے سات سے نو درجے نیچے چلا گیا ہے۔ سریاب کے مکین ہر دوسرے دن گیس کی نایابی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سڑک کو بلاک کیا جاتا ہے لیکن مجال ہے کہ متعلقہ حکام پر کوئی اثر ہو۔ ظلم تویہ ہے کہ اسی گیس کمپنی نے موسم گرما کے ماہ جولائی اور اگست میں سریاب روڈ اور کوئٹہ کے علاوہ قلات شہر کے سینکڑوں صارفین کو بیس ہزار سے 25ہزار روپے تک کے بل بھیج دئیے وجہ یہ بتائی گئی کہ آپ لوگوں کا ماہ دسمبر کے استعمال شدہ یونٹس کیوں کم ہیں یا اس ہدف سے آگے یونٹس کیوں استعمال نہیں ہوئے اور اب یہی گیس حکام اپنی آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگ گیس پریشر نہ ہونے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔اور یہ پورا موسم سرما اسی طرح گزرے گا لیکن بلوچستان کے عوام کو گیس نہیں ملے گی۔مرکز میں براجمان ن لیگ کی حکومت 87قومی اداروں کو ساہو کاروں اورتاجر برادری کے ہاتھوں فروخت کررہی ہے اس میں تیل اور گیس کی کمپنیاں، بشمول پی پی ایل کو بھی فروخت کیا جارہا ہے۔ جب کبھی بھی تاجر لیگ اقتدار میں آیا اس نے قومی اثاثے فروخت کرنا شروع کردیئے۔ نج کاری کے نام پر اپنے من پسند تاجروں اور ساہو کاروں کو قومی اثاثے فروخت کئے جاتے رہے۔ اس بار ان کی تعداد 87ہے۔ سندھ اور پی پی پی، پاکستان اسٹیل کی نج کاری کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ بلوچستان حکومت کو چاہئے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تمام گیس اور آئل کمپنیوں کی نج کاری کو ہر قیمت پر روکے کیونکہ یہ عمل نہ صرف بلوچستان کے مفادات کے خلاف ہے بلکہ بلوچستان کے وسائل پر نج کاری کے نام پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ اگر موجودہ صوبائی حکومت اس میں ناکام رہتی ہے تو یہ اس کے سیاسی مستقبل پر ایک بدنما داغ ثابت ہوسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ ابھی تک صوبائی حکومت کا کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا کہ وہ نج کاری کے خلاف ہے اور بلوچستان کے جائز معاشی مفادات کی دفاع کرنے کا پابند ہے۔ اگر تیل اور گیس کمپنیوں کی نج کاری کی گئی تو اس کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ پی پی پی کی حکومت میں پی پی ایل کی نج کاری کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی ۔اس وقت کے مسلم لیگی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ صوبائی حکومت پی پی ایل کے تمام حصص خود خریدے گی، اس کی نج کاری نہیں ہونے دے گی۔ جب مسلم لیگ کی حکومت اتنا اہم فیصلہ کرسکتی ہے تو نیشنل پارٹی جو اپنے آپ کو ایک قوم پرست پارٹی تصور کرتی ہے اس کوزیادہ سخت موقف اختیار کرنا چاہئے۔ بلوچستان کے جائز مفادات پر کوئی سودے بازی نہیں ہونی چاہئے۔ پی پی ایل، سوئی گیس کمپنیاں اور او جی ڈی سی ایل سالانہ اربوں روپے منافع کمارہی ہیں، اس منافع پر کسی دوسرے صوبے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بلوچستان سے گیس کے ذخائر نے پاکستان کی معیشت کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اس کو مضبوط کیا۔ آج بھی پنجابی صنعت کار اپنے کارخانوں کے لئے اور زیادہ منافع حاصل کرنے کے لئے بلا کسی خلل کے گیس کی سپلائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس گیس سے پنجابی صنعت کاروں نے اربوں دولت کمائی جس سے وہ متبادل ذرائع توانائی استعمال کرسکتے ہیں مگر ان کو مفت اور چوری کی گیس منہ لگ گئی ہے۔ بلوچستان میں صرف دو فیصد لوگوں کو گیس مل رہی ہے۔ پورے پنجاب میں گیس پہنچائی گئی وہ بھی سرکاری خرچ پر، بلوچستان کے عوام کو قدرتی گیس سے صرف اور صرف نفرت کی بنیاد پر محروم کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پی پی ایل کا رویہ بھی بلوچ دشمن رہا ہے۔ پی پی ایل پر انتظامی کنٹرول پنجابی اور مہاجروں کا ہے۔ بلوچ کے لئے صرف چوکیدار، چپڑاسی اور کلرک کی نوکری رہ گئی ہے۔ بڑے بڑے انتظامی عہدوں سے بلوچوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ یہ امتیازی سلوک گزشتہ 50سالوں سے جاری ہے ابھی تک اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس وجہ سے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے تنگ آکر یہ مطالبہ کردیا کہ پی پی ایل میں جتنی ملازمتیں ہوں وہ بگٹی قبائل کو دی جائیں کیونکہ سوئی گیس ان کی ملکیت ہے۔ دوسرے بلوچوں کی ملازمتیں بھی بگٹی قبائل کو دی جائیں مگر آج تک پی پی ایل کے انتظامیہ پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ اس لئے مفاد پرست قومیتیں پی پی ایل کی نج کاری میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں کہ اس پر پنجاب کے سرمایہ دار کا کنٹرول ہو۔ سالانہ اربوں کا منافع غریب بلوچوں کو نہیں پنجابی ساہو کار کو جائے جو ناقابل قبول ہے۔