|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2013

2013ء جہاں جمہوری اداروں کے لیے ایک کامیاب سال تھا وہاںیہی سال لوگوں کے لیے تباہی اور بربادی کا سامان لایا۔ اس سال وزیرستان اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں تباہی اور بربادی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جنگ وجدل صوبے کے بندوبستی علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ یہاں تک کہ ہنگو کے ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملہ ہوا اور اس میں حقانی نیٹ ورک کے پانچ اہم ترین رہنما ہلاک کیے گئے۔ اس سے قبل حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم ترین رہنما کو اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ شاید پاکستان کے دشمن یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ پاکستان کی سرزمین کو افغان دہشت گرد استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے جنگ قبائلی علاقوں سے بندوبستی علاقوں میں پھیل گئی۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی ریاست اور اس کے اداروں کی طرف سے اشارے ہیں کہ بلوچستان میں صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔لوگوں کو اغواء کرنا ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ڈاکٹروں کو اغواء کیا گیااور بلوچ ڈاکٹر ابھی تک لاپتہ ہیں جس کی وجہ سے کئی ماہ تک پورے بلوچستان کے لوگ علاج معالجے کی سہولیات سے محروم رہے۔ وجہ ڈاکٹروں کی کامیاب ہڑتال تھی اور ڈاکٹر حضرات نے سرکاری اہلکاروں پر اغواء کاروں کی سرپرستی اور مدد کرنے کے الزامات لگائے۔ ڈاکٹر مناف ترین نے پانچ کروڑ کی رقم تاوان ادا کی اور رہائی پائی۔ نواب کانسی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ گیارہ پارٹیوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ قدم حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا کہ ابھی تک صورت حال میں بہتری نہیں آئی ہے اور قبائلی سردار بھی اغواء ہونے لگے ہیں۔ حالانکہ حکومتی حلقے حکمرانی کے لیے سرداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر آج کل وہ خود جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد یہ قوت اور ہمت صرف سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی سے ہی حاصل کرسکتے ہیں کہ ان کو کوئی گرفتار نہیں کرسکتا اور گرفتار ہو بھی جائیں تو ان کو رہا کیا جاسکتا ہے۔ یہی کچھ لورالائی میں بھی ہوا جہاں جرائم پیشہ افراد جو اغواء برائے تاوان میں گرفتار تھے رہا کردیئے گئے۔ دوسری جانب بلوچستان میں بدامنی کے ساتھ ساتھ غربت اپنے عروج پر ہے۔ بے روزگاری عام ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومت سالانہ صرف چند سو ملازمتیں فراہم کرتی ہیں۔ تعلیمی اداروں سے سالانہ 25ہزار سے زائد نوجوان فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور ان کے لیے ملازمت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ بے روزگاری کی فوج میں اضافہ کررہے ہیں مہنگائی کا طوفان رکنے کا نام نہیں لیتا۔ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ کساد بازاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت صرف نوٹ چھاپنے میں مصروف ہے۔ اسمگلنگ عام ہے۔ جعلی اشیاء کی فروخت ہر دکان پر جاری ہے۔ دوائیں سو فیصد جعلی ہیں۔ امن عامہ تباہ ہے۔ سڑکیں شام ہوتے ہی خالی ہو جا تی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں سیکورٹی فورسز کا راج ہے جو مرضی آئے کرے۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مقامی انتظامیہ، پولیس اور لیویز کو دفتروں تک محدود کردیا گیا ہے۔ بہر حال 2013ء بلوچستان کے لیے مزید تباہی اور بربادی لایا۔