|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2014

ایک بار پھر الطاف حسین نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے ’’حقوق‘‘ تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ مہاجروں کے لیے صوبہ سے بڑھ کر الگ ملک کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ متحدہ اس سے قبل بھی اس قسم کے مطالبات کرتی آرہی ہے مگر اکثر سیاسی پارٹیوں نے ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ وہ متحدہ کو ایک سنجیدہ سیاسی پارٹی نہیں سمجھتے۔ ان کی سرشت میں غل غپاڑہ کرنااور سنجیدہ سیاسی معاملات کو بازاری زبان میں مذاق بنانا ان کی عادت ہے۔ متحدہ اپنے آپ کو مہاجروں کی پارٹی سمجھتی ہے، یہ صرف زبان کی بنیاد پر سیاست کررہی ہے۔ باقی ان کے پاس کچھ نہیں ہے تاریخی طور پر مقتدرہ نے پنجاب کو بچانے کے لیے سندھ کو نشانہ بنایا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت جب مہاجرین کے قافلے پنجاب داخل ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ یہ ہندوستان ہے، پاکستان آگے ہے۔ اس طرح سے 50لاکھمہاجر سندھ میں آئے۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکی، پوری دنیا سے خصوصاً بھارت سے غیر قانونی تارکین وطن کو دعوت دے کر بلایا اور پھر انہیں سندھ میں بسایاگیا ۔ اس کا مقصد سندھ کی آبادی کے بیلنس کو سندھیوں کے خلاف تبدیل کرنا تھا۔ آج بھی لاکھوں بنگالی، بہاری، برمی، افغانوں نے سندھ کومسکن بنایا ہے، پنجاب کو نہیں۔ بلوچستان پسماندہ ہے، ریگستان ہے یہاں ذرائع زیست موجود نہیں۔ ایک سازش کے تحت پورے ملک سے لوگوں کو یہ ترغیب دیا جارہا ہے کہ سندھ، خصوصاً کراچی سونے کی چڑیا ہے۔ وہاں جاکر سندھیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالو اور دولت کماؤ۔ چنانچہ آبادی کا یہ بیلنس تبدیل کرنے کی کوشش اب تک جاری ہے۔ ایم کیو ایم کی بنیاد ہی سندھ اور سندھیوں سے نفرت پر رکھی گئی۔ مقتدرہ نے اس کو ہر قسم کی سہولیات اور وسائل فراہم کئے تاکہ وہ ایک طاقتور گروہ بن کر سندھ پر حکمرانی کرے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد 114اردو بولنے افسروں کو اقتدار دیا گیا تھا، سیاسی رہنماؤں کو نہیں۔ انہوں نے پورے پاکستان پر 1958تک بغیر شرکت غیرے حکمرانی کی۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد دارالخلافہ کراچی سے تبدیل کردیا گیا ، اس کے باوجود لاکھوں اردو بولنے والے وفاقی ملازمین اسلام آباد پہنچ گئے۔ بہر حال آنے والے دنوں میں ان کے اقتدار اور سیاسی قوت میں کمی لائی گئی اور ان کے بجائے مالک مکان پنجابیوں نے اپنا زبردست اثر ورسوخ استعمال کیا اور مہاجروں کو بڑی تعداد میں اقتدار کے ایوانوں سے باہر کردیا۔ اس کے بعد اردو بولنے والے پنجابیوں کے ماتحت ہوگئے اور ان کے احکامات پر کام کرتے رہے۔ سندھ کے خلاف دونوں کا ایجنڈا یکساں تھا اور اس میں کوئی فرق نہیں تھا کہ سندھیوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کیا جائے اور ان کو مسلسل دباؤ میں رکھا جائے جس کے لئے ایم کیو ایم بنائی گئی اور اس کو انہی اہداف کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ اب الطاف حسین کو یہ غلط فہمی ہے کہ کراچی میں اردو بولنے والے مکمل اکثریت میں ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے پنجاب اور کے پی کے سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ کراچی آئے ہیں جس سے اردو بولنے والے اکثریت میں نہیں رہے۔بلوچ ہمیشہ سندھ دھرتی کے لیے قربانیاں دیتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ بلوچ، سندھیوں کے تاریخی پڑوسی ہیں اور ان کی ہر خوشی اور غم میں شریک ہیں۔ اسی طرح ایک تنازعہ کی صورت میں پنجابی، پختون، سرائیکی بلکہ بنگالی بھی سندھیوں کا ساتھ دیں گے اور سندھ کو تقسیم ہونے نہیں دیں گے۔ اگر الطاف حسین بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ اور بات ہے۔ بہر حال ایم کیو ایم کا سندھ میں کوئی مستقبل نہیں جس دن ایم کیو ایم کے لوگوں سے بندوقیں چھین لی گئیں تو ان کے ووٹروں کی تعداد 10فیصد سے بھی کم رہ جائے گی اور الطاف کے جلسے میں صرف چند سو آدمی ہونگے کیونکہ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ ہے کوئی سنجیدہ سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ نہ ہی ایم کیو ایم کے رہنما سیاسی معاملات پر گرفت رکھتے ہیں۔