پاکستانی حکمرانوں نے یہ حقیقت ابھی تک تسلیم نہیں کیا کہ بلوچستان ایک اہم ترین خطہ ہے اس کی معاشی ترقی کے بغیر پاکستان کی ترقی ناممکن ہے۔ بلوچستان آدھا پاکستان ہے۔ آدھا پاکستان پسماندہ، غریب اور نادار ہو تو کس طرح سے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ظلم اور زیادتی کہ اس کی قومی دولت سوئی گیس کو جلا دیا گیا وہ بھی بے دردی کے ساتھ۔ پنجاب کے سرمایہ دار اپنے کارخانے اسی قدرتی گیس سے چلاتے ہیں ،اب کروڑوں گاڑیوں میں تیل کے بجائے گیس استعمال ہورہی ہے۔ بڑے بڑے ٹرک، بسیں، قیمتی گاڑیاں اسی قدرتی گیس سے چلائی جارہی ہیں۔ گھریلو صارفین کو کھانا پکانے کے لیے گیس حاصل نہیں۔ ضرورت سے زیادہ عقل مند شخص نے یہ مشورہ دیا تھا کہ تیل کی درآمدات کو کم کرنے کے لیے سوئی گیس کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس طرح سے حکمرانوں نے اربوں روپے کمائے اور دوسری جانب گیس کے ذخائر ختم ہوگئے۔ اگلے تین سالوں تک ایران اور ترکمان کی گیس نہیں پہنچ پائے گی۔ کارخانے دار اور سی این جی مافیا کو ان ہی گیس کے ذخائر پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس سے ملک کو ترقی ملے گی اور نہ ہی معاشی بحران ختم ہوگا۔ گھریلو صارفین کو کھانا پکانے اور سردیوں میں کمرے گرم کرنے کے لیے گیس نہیں ملے گی۔ جام کمال صاحب بلوچستان میں مزید گیس تلاش کرنے لیے آئے اور کہا کہ مختلف اداروں اور کمپنی کو گیس تلاش کرنے کی لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ ان لائسنسوں سے پنجاب کو اضافی گیس اگلے تین اور چار سال تک نہیں مل سکتا۔ حکمرانوں نے بلوچستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ گزشتہ دس سالوں میں قلات سے گیس کی پائپ لائن کو مجرمانہ طور پر توسیع نہیں دی گئی۔ خضدار، نوشکی، دالبندین کو گیس کی سپلائی اگلے ایک سو سالوں میں نہیں مل سکتی کیونکہ حکمرانوں کو بلوچستان سے محبت نہیں ہے اور نہ یہاں کے غریب عوام سے ہمدردی ہے۔ ان تمام باتوں سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ بلوچستان کے لوگ اور بلوچستان کے وسائل پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔ بجلی کا بحران ہے۔ ایران زیرو میل سرحد سے 20ہزار میگا واٹ بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے چونکہ اس سے پہلے فائدہ بلوچستان اور اس کے عوام کو ملے گا۔ اس لئے یہ منصوبہ قابل قبول نہیں۔ اسی طرح سے ایران گیس پائپ لائن میں بھی جان بوجھ کر رخنے ڈالے گئے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ایران گیس پائپ لائن سے بلوچستان کے دونوں بازؤں’’ ایرانی بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان ‘‘کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ بارہ سو سے زائد ساحلی علاقہ بلوچستان کے پاس ہے۔ تیل گیس اور معدنیات کے ذخائر بلوچستان کے پاس ہیں۔ دو کروڑ ایکڑ سے زائد زرخیز زمین بلوچستان میں ہے۔ آبی گزرگاہوں پر ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے ڈیم اور بند تعمیر کئے جاسکتے ہیں جس سے پانی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ تین سو میل دریائے سندھ بلوچ سرزمین پر بہتا ہے۔ ونڈ انرجی یا ہوا سے توانائی حاصل کرنے کا منبع بلوچستان میں ہے۔ پہلا نوکنڈی کا علاقہ جس میں سندھک اور ریکوڈک بھی آتے ہیں اور دوسرا جیونی سے لے کر حب تک سمندری پٹی بلوچستان کے پاس ہے۔ کوئلہ، یورینیم، سونے، تانبے کے ذخائر بلوچستان کے پاس ہیں ان کے بغیر پاکستان کیسے ترقی کرسکتا ہے۔ پاکستان آج بھی بلوچستان کا محتاج ہے صرف گیس کے ذخائر کم ہونے سے پنجابی کارخانے دار پریشان ہے کہ اس کے منافع میں کمی ہورہی ہے۔ حکمرانوں کو یہ پریشانی نہیں ہے کہ ملک معاشی طور پر تباہ ہورہا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صرف 5ہزار نوکریاں دی گئیں۔ باقی ملازمتیں وزیروں نے نیلام کردی تھیں۔ درحقیقت بلوچستان میں ترقی کی شرح منفی ہے کیونکہ صوبے بھر میں کہیں بھی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ نہ حکمرانوں کا سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ہے۔ سرمایہ کاری صرف پنجاب میں ہورہی ہے۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ دوسرے ممالک کے ساتھ براہ راست معاشی، تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہے۔