|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2014

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را سمیت غیر ملکی عناصر کا ہاتھ ہے، الطاف حسین کے صوبہ توڑنے کے بیان پر شور مچانے والے بلوچستان میں ملک توڑنے کی باتوں پر خاموش ہیں، ریاست کو علیحدگی پسندوں سے متعلق دوہری سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔وہ کوئٹہ میں گزشتہ دنوں بم دھماکے میں زخمی ہونیو الے وزیراعلیٰ کے مشیر عبدالماجد ابڑو سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔سرفراز بگٹی نے عبدالماجد ابڑو کی خیریت دریافت کی اور انہیں یقین دلایا کہ ان پر حملے میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کرلیا جائیگا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے وزیراعلیٰ کے مشیر کو اپنی بلٹ پروف گاڑی دینے کی بھی پیشکش کی۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ عبدالماجد ابڑو بم حملے میں محفوظ رہے ،وہ بلوچستان کی سیاست کا سرمایہ ہیں، دہشتگردی کے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں اور دہشت گرد اس طرح بزدلانہ اقدامات سے مسلم لیگ ن کو عوامی خدمت اورعوام سے رابطے کے منشور پر عمل کو نہیں روک سکتے۔ ایک سوال پر صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اب تک ماجد ابڑو پر حملے کے کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے ، 9جنوری کو صوبائی کابینہ کا اجلاس ہورہا ہے جس میں اس مسئلے کو اٹھائیں گے اور اس واقعہ کی جو تحقیقات ہوگی وہ قوم کے سامنے لائیں ہوگی، ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ ذمہ داروں تک پہنچا جاسکے۔ نئے سال پر دہشتگردی میں اضافہ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے لئے کوئی نیا سال نہیں ہوتا، دہشتگرد دہشتگرد ہوتا ہے وہ ہمشہ موقع کی تلاش میں ہوتا ہے ، اختر آباد میں زائرین کی بس پر حملے کے بعد اے ٹی ایف کے جوانوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلتی بس سے لوگوں کو نکالا، اہلکاروں کی کارکردگی قابل فخر اور قابل تحسین ہے جس کو سراہا جانا چاہیے ،ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مخدوش اور مخصوص حالات ہیں ،ان حالات میں نئی حکومت کے آنے سے امن وامان کی صورتحال میں فرق پڑا ہے اور منظم جرائم میں بڑی کمی آئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ علیحدگی پسندوں سے متعلق ریاست کا مائنڈ سیٹ دوہرا ہے ،جب تک یہ دوہری سوچ ختم نہیں ہوتی اور جب تک دہشت گرد کو دہشتگرد نہیں کہاجاتااور انہیں ناراض بلوچ کہتے رہیں گے تب ممکن نہیں کہ شورش میں کوئی کمی آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور کابینہ کے سامنے ایک بار پھر مذاکراتی عمل اور کل جماعتی کانفرنس کو زیر بحث لائیں گے ، دیکھتے ہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ، اللہ کرے کہ بات چیت سے کوئی مسئلہ حل ہولیکن اے پی سی اور مذاکرات کے نام پر وقت اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے ، اس پہلو پر ہم سب کو ، وزیراعلیٰ اور اسٹیک ہولڈرز کو سوچنا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ تمام مسائل کا سب سے بہترین حل مذاکرات ہی ہوتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ مسلح لوگ حکومت سے مذاکرات کرتے ہیں یا نہیں۔سرفراز بگٹی کا کہناتھا کہ وہ بذات خود وزیر داخلہ کی حیثیت یہ سوچ رکھتے ہیں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ،بے گناہ اور معصوم شہریوں کی جان سب سے عزیز ہیں، انہیں نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت اقدام ہونا چاہیے وفاقی اور حکومت کی یہی پالیسی ہے کہ مسئلے کو اے پی سی اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے ، اے پی سی کے لئے پہلے دسمبر کا وقت دیا گیا جو گزر گیا ، اب دیکھتے ہیں 9جنور ی کو صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کس تاریخ کا اعلان کیا جاتا ۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ پولیس ، ایف سی ، خفیہ اداروں سمیت تمام سیکورٹی فورسز کو اس بات کا اعزاز دینا چاہتے ہیں کہ 2012اور گزشتہ سالوں کی نسبت 2013میں منظم جرائم خصوصاً شاہراہوں پر ڈکیتیوں میں کمی آئی ہے،اغواء کی وارداتیں دو بڑی ہوئیں جن میں ارباب ظاہر کاسی کا معاملہ اب تک حل طلب ہے ، سب کو اس کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں نے بہت سارے واقعات کی بروقت اطلاع دی جس کی وجہ سے وہ نہیں ہوسکے، پولیس نے کچھ دن قبل بھی دہشتگردی میں ملوث نوجوانوں کو پکڑا،ہم عوام کی مدد سے منظم کرائم کو ختم کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔کوئٹہ میں طالبان کمانڈر کے قبل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس حولے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں غیر ملکی ہاتھ ہیں، یہ یونیورسل ٹرُتھ ہیں کہ بھارتی خفیہ ادارے را کے فنڈ حاصل کرنے والے لشکر بڑے سرعام کارروائیاں کررہی ہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بلوچستان کے سو فیصد علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم ہے تاہم کچھ چھوٹے علاقے بشمول آواران اور تربت کے دور دراز کے علاقے ایسے ہیں جہاں ریاست کی رٹ نہیں ،حکومت کی رٹ تقریباً ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کی کمزوری کتنی ہے وہ قابل بحث ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے صوبہ توڑنے کا بیان دیا سب نے شور مچایا یہاں لوگ ٹی وی پر پاکستان توڑنے کی بات کرتے ہیں اور ہم انہیں ناراض بلوچ کہتے ہیں جب تک یہ مائنڈ سیٹ رہے گا یہ حالات رہیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں طالبان کا عنصر یا طالبان شوریٰ کا کوئی وجود نہیں ۔