|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2014

کوئٹہ ( آن لائن) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ 11مئی کے انتخابات کی شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کسی طرح سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے ہر ذی شعور بلوچستانی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جس طرح موجودہ حکمرانوں کو ایوان اقتدار تک پہنچانے میں نادیدہ قوتوں نے اپنے جوہر دکھائے بعض سیاسی جماعتوں کو پونم کے خاتمے کے انعامات سے بھی نوازا گیا حقیقی عوامی نمائندوں کو ملنے والے مینڈیٹ کو ردی کی ٹھوکری کی نظر کر کے ووٹ کا تقدس پامال کیا بیان میں کہا گیا ہے کہ حکمران افغان مہاجرین کی ترجمانی کر کے پاکستان اور بلوچستان کو عالمی یتیم خانے کی حیثیت دینا چاہتے ہیں افغان ثور انقلاب کے بعد بلوچستان میں ترقی پسند ، روشن خیال ، قوم دوست ، وطن دوست قوتوں نے افغانستان سے آنے والے افغان مہاجرین کو جن القابات سے نوازاتھا تاریخ شاہد ہے لیکن اب افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی کے درس کا پرچار بھی کیا جا رہا ہے کیا بلوچستان میں آباد افغان مہاجرین افغانستان کا امن و امان کو تہیہ و بالا کرنے کا سبب نہیں بن رہے ؟ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین قابل قدر ہیں ہمیشہ اہل بلوچستان نے افغانستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھا لیکن اس کا مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ بیرونی مہاجرین کو بلوچستان میں آباد کر کے مقامی آبادی کو اقلیت میں کیا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین کو شناختی کارڈ ، پاسپورٹ سمیت دیگر دستاویزات کے اجراء کیلئے حکومتی سطح پر جو ہاتھ پاؤں مارے جا رہے ہیں یہ عمل بین الاقوامی مسلمہ اصول کے منافی اقدام ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کی مقامی آبادی معاشی ، سماجی مسائل کا شکار بنتی جا رہی ہے اور انہی کی بدولت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں جو اہل بلوچستان کیلئے قرب ، مشکلات اور ناپسندیدگی کی علامت بنتے جا رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین بلوچستان عوام کی حق تلفی کا سبب بنتے جا رہے ہیں دوسری جانب مقامی پشتون بھی اس چیز سے متاثر ہو رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین کے انخلاء نعرہ نہیں بلکہ اصولی موقف ہے جو کہ افغان سور انقلاب کے بعد اب تک موقف پر قائم ہیں لیکن بعض لوگ آج اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے مہاجرین کی ترجمانی کر رہے ہیں جو بلوچستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہے توسیع پسندانہ سوچ کو پروان چڑھانے میں حکومت کی سطح پر جو بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ایسے منفی سوچ کو جو پذیرائی دی جا رہی ہے جس سے یہاں پر سیاسی و سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے سابقہ سیکرٹری شماریات پاکستان نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ بلوچستان میں پشتون علاقوں میں افغان مہاجرین کے گھروں کو دو دو بار شمار کیا گیا اور بہت سے خدشات کا ذکر بھی میڈیا کے سامنے کیا تھا جو ہماری موقف کی تائید کرتا ہے ملک میں خانہ شماری ، مردم شماری کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے اس موقع پر مہاجرین کا اس انداز دفاع اوران کے انخلاء کے خلاف واویلا سے لسانیت اور شاؤنزم کی بہو آ رہی ہے اور مہاجرین نکالو کے نعرے سے استرابی کیفیت کا سبب کیوں بن رہے ہیں ؟ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر بلوچستان میں بسنے والے پشتون بلوچستان دھرتی پر حقوق کی عدم حصول کے احساس کا شکار ہیں اور اپنی الگ حیثیت چاہتے ہیں تو وہ پشتون علاقوں پر اپنے لئے افغانیہ ، پشتونخواء ، پشتونستان ، جنوبی پشتونستان یا کسی بھی نام سے کوئی شہر یا صوبہ بنانا چاہتے ہیں بلوچستان عوام ان کی بھرپور حمایت اور تعاون کرے گی بی این پی کو کوئی اعتراز نہیں ہوگا لیکن کوئی اس خام خیالی میں رہے نہ یہ ممکن ہے کہ بی این پی لاکھوں افغان مہاجرین کو بلوچ دھرتی پر آباد کر کے وسائل کو لوٹنے کی اجازت دیتے ہوئے بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر خاموش رہے گی بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی نے ہمیشہ تنگ نظری ، معتبصانہ سوچ کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے بلوچستان میں ترقی پسند روشن خیال فکر پر عمل پیرا رہا ہے حکمران ایسے سوچ سے اجتناب کریں جس سے بلوچستان کے عوام کو سماجی ، معاشی اور اقتصادی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ بی این پی کسی ایسے مردم شماری ، خانہ شماری کو قبول نہیں کرے گی جس میں غیر ملکیوں کو شامل کیا جائے ۔