بنگلہ دیش میں انتخابات مکمل ہوگئے۔ نتائج سامنے آگئے عوامی لیگ نے دوبارہ انتخابات جیت لئے۔ بی این پی اور دوسری جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کی۔ انتخابات کے دوران تشدد سے 30سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ ایک سو سے زائد پولیس اسٹیشن کو جلادیا گیا۔ تشدد وسیع پیمانے پر ہوا جس کی مثال صرف مشرقی پاکستان کے زمانے سے مل سکتی ہے۔ بہر حال تشدد کے دوران انتخابات نے پورے عمل کو مشکوک بنادیا بلکہ اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھادیا۔ شاید ہی کوئی شخص شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو قانونی تسلیم کرے گا۔ اس لئے یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ عوامی لیگ کو ملک میں جلد یا بدیر عام انتخابات کرانے پڑیں گے جس میں تمام اہم ترین پارٹیاں شرکت کریں۔ عوامی لیگ اور اس کے رہنماء’’ جماعت اسلامی‘‘ دشمنی میں بہت زیادہ دور چلے گئے۔ قادر ملا کی پھانسی کے بعد حالات میں زیادہ خرابی پیدا ہوگئی جس کے بعد شیخ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے رہنماؤں سے نفرت اور بدلہ کا عنصر نمایاں نظر آرہا ہے۔ بنگلہ دیش کے واقعات کو 30سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا۔ اب وہاں تمام سیاسی پارٹیوں کو درگزر سے کام لینا چاہئے اور عدالتی قتل سے باز رہنا چاہئے کیونکہ جماعت اسلامی نے ملک کے انتخابات میں کئی بار حصہ لیا۔ ان کے لوگ وزیر بنے، پارلیمان کے رکن بنے۔ بنگلہ دیش سے وفاداری کا حلف بھی اٹھالیا ۔ اس کے بعد عدالتی قتل کا سیاست میں کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس سے عوامی لیگ کی حکومت کے ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے۔ عوامی لیگ کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہئے اور نئے انتخابات کرانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے فوری طور پر مذاکرات کرنے چاہئیں کیونکہ دوبارہ انتخابات لازمی ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ اطلاعات ہیں کہ صرف 20فیصد لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ دوسرے الفاظ میں 80فیصد لوگ ان انتخابات سے دور رہے ،اس نے عوامی لیگ کے قانونی حق کو متاثر کیا ہے۔ عوامی لیگ نہ بھی چاہے تو اس کو دوبارہ انتخابات کروانے پڑیں گے اس کے لئے اپوزیشن پارٹیوں سے بات چیت شروع کرنی پڑے گی۔ بنگلہ دیشی حکومت کی ساکھ اس وقت بحال ہوگی جب نئے انتخابات میں تمام پارٹیاں شرکت کریں گی۔ جماعت اسلامی کو الگ نکتہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ بہر حال وہ بنگالی عوام میں ایک مقبول پارٹی ضرور ہے۔ عوامی لیگ اس کو سیاسی طور پرشکست دے۔ قابل اعتراض ہتھکنڈے استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ ان تمام واقعات سے پورے خطے میں عوامی لیگ کی مقبولیت میں کمی واقع ہورہی ہے جو عوامی لیگ اور اس کی روایتی لیڈر شپ کے لیے نیک شگون نہیں۔