|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2014

پی پی پی کے دور میں سعودی پاکستان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے اور سعودی حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ ’’دوری‘‘ کو برقرار رکھا۔ پی پی پی نے بھی وجوہات نہیں بتائیں حالانکہ صدر زرداری ایک اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب لے گئے تھے اور سعودی حکمرانوں سے مذاکرات کئے جو لاحاصل رہے۔ مگر مسلم لیگ ن اور خصوصاً نواز شریف کی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلی فرصت میں سعودی وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے اور دو طرفہ تعلقات کو زیادہ مضبوط طریقے سے استوار کرنے کی ابتدا کی۔ سعودی عرب پورے خطے کا ایک اہم ترین کھلاڑی ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے بحیثیت پاکستان ایک ایٹمی قوت کے۔ اگر ایران ایٹمی طاقت بن جاتا ہے یا ایٹمی ہتھیار بنالیتا ہے تو ممکن ہے سعودی عرب پاکستان کے زیادہ قریب ر ہے اور ایٹمی چھتری کا مطالبہ کرے ۔اگر ایران سے سعودی عرب کو ایٹمی خطرات لاحق ہوگئے۔ ایران کے اخبارات نے یہ الزامات لگائے کہ سعودی عرب پاکستان سے ایٹمی ہتھیار خریدنے کی کوشش کرے گا۔ کیا پاکستانی ایٹمی ہتھیار برائے فروخت ہیں؟ یہ دنیا جانتی ہے کہ ایٹمی ہتھیار اور میزائل فروخت کے لئے نہیں ہوتے صرف اور صرف ملکی دفاع کے لیے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب دو طرفہ تعلقات کے ذمرے میں سعودی عرب نے افغانستان کے معاملے میں پاکستانی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کی جبکہ پاکستان نے شام کے معاملے میں سعودی نکتہ نظر کی حمایت کی۔ اس طرح سے یہ واضح ہوگیا کہ ایران شام میں حکومت کی حمایت کررہا ہے جبکہ پاکستان ایرانی پالیسی کے برخلاف حکومت مخالف قوتوں کی حمایت کرے گا۔ بہر حال حکومت پاکستان نے اس کا حتمی اعلان نہیں کیا جبکہ سعود الفیصل کے دورے کے دوران یہ اشارے ملے ہیں۔ بہر حال پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ پاکستان حکومت اور دوسرے حلقوں کو یہ شکایت ہے کہ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو مالی امداد سعودی عرب سے مل رہی ہے۔ خصوصاً سعودی امداد دینے والے ادارے اور سعودی علماء اس میں پیش پیش ہیں۔ حکومت پاکستان کی یہ خواہش ہے یا مطالبہ ہے کہ سعودی حکومت پاکستان میں فرقہ پرستوں کی مالی امداد بند کردے تاکہ پاکستان میں فرقہ پرستی کی سرپرستی نہ ہو۔ اگر سعودی عرب یہ غیر قانونی، غیر شرعی اور غیر اخلاقی امداد دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو بند کردیتا ہے تو دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی اور پاکستان میں امن کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے۔ اس کے بعد ہی دوسرے ممالک سے رجوع کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ’’پراکسی‘‘ کی امداد بند کردیں تاکہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ البتہ سعودی حکومت کا پہل اہمیت رکھتا ہے کیونکہ سعودی امدادی ادارے اور علماء بڑے پیمانے پر فرقہ پرستوں کو امداد فراہم کررہے ہیں۔