کراچی(آن لائن) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے کہا ہے کہ طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، امریکی دباؤ اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے حکومت کبھی مذاکرات کیلئے سنجیدہ نہیں ہوسکی۔ ذاتی انتقام کے قائل نہیں مگر دو مرتبہ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کا احتساب ضرور ہونا چاہئے، اس ایشو پر پوری قوم ایک آواز ہے۔ کراچی پریس کلب کی جمہوری روایات قابل قدر ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب کے نو منتخب عہدیداروں کے اعزاز میں جماعت اسلامی کراچی کے تحت ادارہ نورحق میں دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری،کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران،سیکریٹری عامر لطیف اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری عبد الوہاب،ڈپٹی سیکریٹری عبد الرشید بیگ۔برجیس احمد ،ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ریاض صدیقی،نذیر الحسن اور کراچی پریس کلب کے گورننگ باڈی کے دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔ظہرانے کے موقع پر سید منورحسن نے امتیاز خان فاران کو گلدستہ بھی پیش کیااور پریس کلب کے تمام عہدیداران کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کیاجبکہ امتیاز فاران اور عامر لطیف نے طہرانے کے انعقاد پر جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر خطاب کرتے سید منورحسن نے کہا کہ عیسیٰ نگری کے وحشت ناک واقعے نے کہ جس میں پولیس کے ایک سینئر آفیسر شہید ہوئے نے کئی سوالات کوازسر نو زندہ کر دیا ہے۔ تاریخ کا نچوڑ ہے کہ طاقت کا استعمال کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں رہا۔ آئرش ریپبلکن آرمی کی مثال ہمارے سامنے ہے، 27 سال تک کال کوٹھری میں ایک دہشت گرد کی حیثیت سے پڑا رہنے والا نیلسن منڈیلا بالآخر دنیا کا سب سے بڑا ڈیموکریٹ ثابت ہوا۔ یاسر عرفات بھی پہلے دہشت گرد تھے، بعد میں جمہوریت کی طرف آئے۔ پاکستان کو ملٹری آپریشن کا جتنا تجربہ رہا ہے اتنا شاید ہی کسی اور کو رہا ہو۔ مشرقی پاکستان ملٹری آپریشن کے باعث بنگلہ دیش بنا۔ اس کے بعد بلوچستان، سوات ، وانا سمیت کئی آپریشنز کیے گئے جنہیں کامیاب قرار دیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ پھر فوج اب تک ان علاقوں میں کیا کر رہی ہے۔ قومی پریس کو وہاں آزادی کے ساتھ کوریج کی اجازت کیوں نہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر کسی سازش کے باعث مذاکرات ناکام ہوجائیں پھر بھی راستہ مذاکرات کی اگلی میز ہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے مذاکرات میں ذاتی دلچسپی لی، سب سے باتیں کیں، مجھے لگا لوگ سنجیدہ ہیں، مگر مذاکرات کے نام پر جو کچھ کیا گیا ا سکا نتیجہ قوم کے سامنے ہے، حقیقت یہ ہے کہ امریکی دباؤ اور اسٹبلشمنٹ کی وجہ سے حکومت کبھی مذاکرات کیلئے سنجیدہ نہیں ہوسکی۔میں نے آرمی چیف سے بارہا درخواست کی کہ آپ کو ملٹری آپریشن کا بڑاتجربہ ہے، ذرا بیلنس شیٹ بنا کر قوم کو بتائیں کہ ان آپریشنز میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ کتنو ں کے دل جیتے اور کتنوں کومخالف کیا۔انہوں نے کہاکہ کراچی آپریشن کا نتیجہ بھی کل سامنے آگیا، اگر ایسا ہائی پروفائل افسر بھی ہلاک ہوگیا اور چوبیس گھنٹے گذرجانے کے باوجود قاتل گرفتار نہ ہو سکے تو اس آپریشن کا کیا نتیجہ مل رہا ہے؟ رینجرز روز گرفتاریوں اور بھاری اسلحہ برآمد کرنے کے دعوے کرتی ہے مگر گرفتار ملزمان کو منظر عام پر نہیں لایاجاتا، ا ن پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا۔ یوں لگتا ہے جیسے انتظار کیا جارہا ہے کہ کسی بلیک میلنگ کے نتیجے میں ان قاتلوں‘ بھتہ خوروں اورگرفتار شدگان کو چھڑا لیا جائے۔ اصل ایشو مذاکرات یا ملٹری آپریشن کا نہیں، مگر حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ آصف زرداری منتخب صدر تھے مگر عدالت میں پیش ہوئے۔ واویلا کیا جارہا ہے کہ مشرف کی کردار کشی ہو رہی ہے، مگر بحیثیت قوم ہمیں روایت قائم کرنے کا نادر موقع ملا ہے کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان میں امیر غریب سول ملٹری سب کے لئے یکساں قانون ہے۔ کچھ لوگ 12 اکتوبر سے کاروائی کا آغاز کرنا چاہ رہے ہیں، ہم اس کے مخالف نہیں ایک بار کاروائی شروع تو ہو جائے پھر سارے مقدمات خود ہی کھلتے چلے جائیں گے۔ اس ایشو کو غیر ضروری سیاسی رنگ دے کر مشرف کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے‘ یہ کسی طور بھی ملک و قوم کی خدمت نہیں۔ ہم ذاتی انتقام کے قائل نہیں مگر دو مرتبہ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے کا احتساب ضرور ہونا چاہئے، اس ایشو پر پوری قوم ایک آواز ہے۔ مگر لوگوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ شاید اس معاملے میں بھی نتیجہ صفر نہ نکلے۔