کراچی کے معروف پولیس افسر چوہدری اسلم ایک دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔ ان کے تین ساتھی بھی دھماکے میں ہلاک اور گیارہ دوسرے اہلکار زخمی ہوئے۔ وہ اپنے حفاظتی کاروان میں جارہے تھے کہ عیسیٰ نگری قبرستان کے قریب ان کے گاڑی کو بم سے اڑادیا گیا۔ اس دھماکے میں 25کلو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ گاڑی 20میٹر دور اڑ کر جا گری۔ تحریک طالبان مہمند ایجنسی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چوہدری اسلم اور اس کی ٹیم نے ان کے 50ساتھیوں کو زیرحراست قتل کیا ہے۔ تحریک طالبان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا کوئی بھی ساتھی مقابلے میں مارا گیا ہے بلکہ سب کو زیرحراست قتل کیا ہے۔ بہر حال پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور یہ سوال دوبارہ اٹھایا ہے کہ حکومت اب بھی دہشت گرد طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ دوسری جانب چوہدری اسلم ایک چالاک افسر تھے۔ اپنے افسر بالا اور اہم شخصیت کی چاپلوسی کرتے کرتے اس نے بہت جلد ترقیاں حاصل کیں۔ چند سال اے ایس آئی رہنے کے بعد کالاکوٹ تھانے کے ایس ایچ او بن گئے جہاں سے انہوں نے دولت اور نام کمایا۔ چوہدری اسلم کو افسر بالا کی قربت کی وجہ سے اچھی اچھی پوسٹوں پر تعیناتی ملی اور انہوں نے ایمانداری سے افسر بالا اور دوسرے اہلکار کا حکم بجالایا۔ 1990ء کے آپریشن میں چوہدری اسلم ان دوسرے افسران میں شامل تھے جنہوں نے بڑا نام کمایا اور سینکڑوں لوگوں کو زیر حراست قتل کیا۔ ان کے دوسرے ساتھی مختلف حملوں میں مارے گئے۔ یہ بچ گئے اور اس نے بقیہ ساتھیوں کو سینکڑوں کی تعداد میں زیر حراست قتل کیا۔ ان میں سے کوئی ایک شخص بھی حقیقی مقابلے میں نہیں مارا گیا، سب کے سب جعلی مقابلوں میں مارے گئے۔ ان میں دو اہم کیس تھے۔ پہلا رحمان بلوچ کا مقابلہ تھا ان کو اوتھل چیک پوسٹ پر گرفتار کیا گیا تھا وہ ایرانی بلوچستان سے کراچی واپس آرہے تھے کہ خفیہ اہلکاروں نے رحمان بلوچ کو گرفتار کیا اور بعد میں اس کو چوہدری اسلم کے حوالے کیا۔ رحمان اور اس کے ساتھیوں سے ایک کروڑ روپیہ رشوت لیا بعد میں ائیرپورٹ کے قریب اس کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی اور یہ دعویٰ کیا کہ ان کو پولیس مقابلے میں ائیرپورٹ کے قریب ہلاک کیا گیا۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے۔ اس طرح سے اوتھل سے گرفتار ہونے والا شخص ائیرپورٹ کے قریب جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ یہ حکمرانوں کا حکم تھا کہ رحمان بلوچ کو مار دو۔ یہ کام چوہدری اسلم نے کیا۔ اسی طرح ولی خان بابر کے قتل میں اصل ملزم کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ بعد میں اس کو چوہدری اسلم کے حوالے کیا گیا چونکہ ان کا زندہ رہنا خطرناک تھا اور ایم کیو ایم کی لیڈر شپ اس میں ملوث پا ئی جاتی۔ اس سے بچنے کے لیے اس زیرحراست ملزم کو کلفٹن لے جایا گیا، وہاں اس کو گولیاں ماری گئیں اور وہ ہلاک ہوگیا۔ میڈیا کو یہ بتایا گیاکہ وہ زیرحراست ایم کیو ایم کا دہشت گرد پولیس کی سربراہی میں کلفٹن کے سڑک پر ڈاکے ڈال رہا تھا۔ لہٰذا حکمرانوں کے حکم کے مطابق اس کو ہلاک کیا گیا تاکہ ولی خان بابر کے قتل کے تمام شواہد ضائع کیے جائیں یہ ایم کیو ایم کی بڑی خدمت تھی جو مقتدرہ کے حکم پر چوہدری اسلم نے بجالائی۔ اس لئے آج ایم کیو ایم کے رہنما چوہدری اسلم کی تعریف میں لگے ہوئے ہیں۔ چوہدری اسلم ایک کرپٹ اور بددیانت افسر تھے۔ اس نے سینکڑوں کی تعداد میں زیرحراست قتل کئے۔ مگر چونکہ اس کا قتل بدنام زمانہ طالبان نے کیا ہے اس لئے اس انسان دشمن کو ہیرو بنایا جارہا ہے۔