مسلم لیگ، تاجروں، نئے دولتیوں، کارخانے داروں اور دوسرے ایسے لوگوں کی پارٹی ہے جو امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر دیکھنا پسند کرتی ہے۔ اس نے ملک کے قومی اور معاشی اثاثوں کو ٹھکانے لگانے کی پالیسی کی ابتداء کردی ہے۔ پہلے مرحلہ میں پی آئی اے اور دوسرے مرحلے میں او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے حصص فروخت ہوں گے۔ اس سے قبل گزشتہ دور میں تاجر لیگ نے تمام بینک نیلام کردیئے تھے اور اب ان کے بچے کچے حصص بھی نیلامی کے لیے پیش ہوں گے۔ گزشتہ دور میں بینک اور دوسرے ریاستی ادارے اپنے مند پسند سیٹھوں اور ساہوکاروں کو فروخت کئے گئے جو اب ارب پتی بن چکے ہیں۔ ان کا ہوس زر اور مال و دولت زیادہ ہوگیا ہے۔ اس بار وہ مزید قومی ادارے خریدیں گے یا ان کے اتنے حصص حاصل کریں گے تاکہ وہ ادارے ان کے قبضے میں آجائیں۔ ان اداروں کی فروخت کی نوبت اس لئے پیش آئی ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے۔ کل ہی وزیراعظم نے یہ اعتراف کیا کہ خزانہ خالی ہے مگر بیرونی ممالک، اقوام متحدہ اور امداد دینے والے بین الاقوامی اداروں کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ آواران کے زلزلہ زدگان کی مدد کو آئیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آواران کے متاثرین کو حکومت صرف تسلی دے گی۔ ان سے جھوٹ بولے گی۔ ویسے بھی موجودہ حکومت صرف کارخانے داروں اور تاجروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اس کا غریب عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک اس وقت توانائی کے بحران میں مبتلاہے اوراسی وقت تاجر لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ گھریلو صارفین کو قدرتی گیس نہ دی جائے اور کارخانوں کو زیادہ گیس دی جائے تاکہ ان کے منافع میں مزید اضافہ ہو۔ بلوچستان کی صورت حال زیادہ مشکل ہے کہ یہ گزشتہ 60سال سے گیس کا مالک ہے۔ اس کو گیس نہیں دی گئی، مالک کو گیس کی مناسب قیمت ادا نہیں کی گئی۔ گزشتہ 60سالوں میں قدرتی گیس کی وجہ سے قومی معیشت نے بہت زیادہ ترقی کی۔ اگر سوئی گیس نہ ہوتی تو دگنا تیل درآمد کرنا پڑتا۔ تیل کی درآمدات پرہر سال چار ارب ڈالر سے لے کر 12ارب ڈالر سالانہ اخراجات آتے ہیں۔ اس طرح اوسط گیس کی قیمت صرف چار ارب ڈالر لگائی جائے تو بلوچستان کا وفاق بلکہ پنجاب پر قرضہ 240ارب ڈالر ہوگا۔ اگر آپ یہ رقم نہیں دے سکتے کیونکہ ملک دیوالیہ ہوگیا ہے تو او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے تمام حکومتی حصص حکومت بلوچستان کے حوالے کریں تو قرضہ بے باک ہوجائے گا۔ گزشتہ تین ادوار میں پی پی ایل کی نج کاری کی زبردست مخالفت کی گئی تھی بلکہ حکومت بلوچستان اس حد تک گئی تھی کہ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ نہ بلوچستان کو گیس دی گئی اور نہ ہی اس کی مناسب قیمت، صوبائی حکومت ایک ٹیکس سوئی گیس کے منبع پیدائش یا (Well Head)پر لگائے تاکہ تیل اور گیس کی قیمت یکساں ہوں اور گیس کا استعمال کم کیا جائے یا اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس دھمکی کے بعد وفاق نے پی پی ایل کی نج کاری کا فیصلہ واپس لے لیا۔ ہم نے گزشتہ سالوں بھی معاملات کو اعلیٰ عدلیہ میں لے جانے کی مخالفت کی تھی کیونکہ بلوچستان کے بارے میں اعلیٰ عدالتوں کا ریکارڈ خراب ہے۔ بلوچستان اور اس کے عوام کو اعلیٰ عدلیہ نے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا۔ ون یونٹ سے لے کر آج تک اعلیٰ عدلیہ عوام دوست ثابت نہیں ہوئی۔ پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل تنازعہ کا حل یہ ہے کہ حکومتی تمام حصص حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں تاکہ عوام الناس میں معاشی اور سیاسی معاملات میں وفاق کے خلاف تلخی کم ہو۔ بلوچ پاکستان میں مطمئن رہیں اور اپنے جائز معاشی اور سیاسی حقوق کو محفوظ تصور کریں۔