|

وقتِ اشاعت :   January 14 – 2014

روز اول سے حکومت کی ترجیحات میں معاشی بحالی کو اولیت دی جارہی ہے اور امن کی بحالی کو ثانوی حیثیت۔ اس ترجیح کی بناء پر لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ بربادی اور تباہ کاری کے ماحول میں کس طرح ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ دوسری جانب امن وامان کی خراب صورت حال میں لوگوں کا سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔ بھتہ خوری کراچی اور دوسرے شہروں میں عام ہے۔ کراچی میں ریڑھی والے سے بھی 10روپیہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ آئے دن تاجر وں کو بھتہ خوروں سے پرچیاں مل رہی ہیں یہاں تک کہ کراچی کی بندرگاہ سے نکلنے والے 20ہزار کنٹینرز فی ٹرک 16ہزار سے 8ہزار بھتہ دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کروڑوں روپے کا بھتہ کراچی پورٹ سے وصول کیا جارہا ہے۔ پہلے یہ ایم کیو ایم ،بعد میں لیاری امن کمیٹی اور اب کوئی اور یا زیادہ طاقتور طبقہ وصول کررہا ہے۔ غرض یہ کہ کراچی آپریشن کے شروع ہونے کے بعد بھی یہ بند نہیں ہوا۔ ملک بھر میں غیر قانونی ملیشیا ہر بڑے شہر میں بھتہ وصول کررہی ہے اور یہ بات حکومت اور اعلیٰ ترین حکام کے علم میں ہے۔ایسی صورت حال معیشت کیسے ترقی کرسکتی ہے جس کا منافع غیر قانونی ملیشیا اور دوسرے بندوق بردار لے جائیں۔ بلکہ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا ہے معیشت تیزی سے دیوالیہ ہونے کی طرف رواں دواں ہے۔ اس کا راستہ روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے کہ حکومتی اخراجات خصوصاً غیر ترقیاتی اخراجات کم کئے جائیں اور زیادہ سے زیادہ وسائل معاشی ترقی و روزگار کے حصول پر خرچ کئے جائیں۔ بلوچستان کے وسیع قدرتی وسائل کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی بلوچستان میں ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا۔ جو کام ہورہا تھا وہ بند کردیا گیا۔ اس کے لئے کئی بہانے تراشے گئے تاکہ بلوچستان پسماندہ ہی رہے اور لوگ غریب تر۔ دوسری جانب نجی ملیشیا اور مذہبی انتہا پسندوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے۔ ان کی ایک آدھ کارروائی پر مخصوص علاقے میں محدود لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ ان نجی ملیشیا کے کمانڈ اور کنٹرول کو تباہ کرنے، ان کی تربیت گاہوں کو تہس نہس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ دہشت گرد اور مذہبی انتہا پسند پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔ کراچی کو ایک اور وزیرستان بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور دہشت گرد جب چاہتے ہیں اپنے ٹارگٹ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنے اہداف میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت پہلے امن و امان قائم کرے۔ کراچی کو وزیرستان بننے سے روکے اور دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ اگر چھ ماہ تک بھرپور اور مسلسل کارروائی کی گئی تو تب ہی معیشت کی بحالی کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا تو یہ خطرہ رہے گا کہ پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی برادری ہمارے اندرونی معاملات میں اعلانیہ مداخلت کرے اور یہ بہانہ بنائیں کہ پاکستان میں لاقانونیت کی وجوہات کی بناء پر ان ممالک کو سیکورٹی کے خطرات لاحق ہیں ۔بین الاقوامی برادری بھی یہ مطالبہ کرسکتی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے خطرے میں ہیں اور ان پر دہشت گردوں کا کنٹرول ہوسکتا ہے تو اس لئے ان کو بین الاقوامی برادری کے حوالے کئے جائیں۔ اس سے پہلے اس قسم کے حالات پیدا کئے جائیں۔ حکومت انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپورکارروائی کرے۔