کوئٹہ ( پ ر) بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ایس او آزاد پر امن اور جمہوری جدوجہد کے ذریعہ بلوچ نوجوانوں کو متحرک کرنے کے اصولوں پر یقین رکھتی ہے۔ بی ایس او آزاد اپنے قیام سے لیکر آجتک ایک پرامن اور جمہوری طریقے سے اپنے نصب العین کی طرف گامزن ہے ، انسان دوستی ، قوم دوستی اور قومی آزادی بی ایس او آزاد کے تعلیمات کا خاصہ رہی ہے۔ مگر بی ایس او آزاد کی پر امن اور جمہوری جدو جہد سے گھبرا کر فورسزکے اہلکار معصوم بے گناہ بلوچ طلباء کے ہوسٹل پر چھا پہ مار کر سیاسی کتابوں کو تخریبی مواد قرار دے رہی ہے۔ علم اور پر امن جدوجہد سے ریاست کی یہ نفرت اسکی بھوکلاہٹ اور بوسیدہ جمہوری ستونوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریاستی فرسودہ نظام تعلیم جو بلوچستان میں مسلط کی گئی ہے صرف نوآبادیاتی اور غلامانہ طرزِ تعلیم ہے جسے صرف نسلیں غلام رکھنے کیلئے ترتیب دی گئی ہے، یہ صرف ریاست کی نام نہاد اور جھوٹی تاریخ اور سامراجی ایجنٹوں کی توسیف و صفت پر مشتمل ہے۔ ریاست کے ان غلامانہ تعلیمات کو بلوچ قوم پر زبردستی مسلط کی گئی ہے ۔ بی ایس او بنانے کا مقصد بلوچ اسٹوڈنٹس کو بلوچ تاریخ ، جغرافیہ اور بلوچ سیاست پڑھا نا اور بلوچ آزادی کے لئے سیاسی اور پر امن جمہوری جدو جہد کرنا ہے۔جو خود کو جمہوری ملک کہتا ہے بی ایس او �آزاد کی پر امن اور جمہوری جدو جہد سے خائف اور انکاری ہے۔ ریاست کو بلوچ قومی تحریک میں نہ جمہوری اور پر امن جدو جہد قبول ہے اور نہ ہی مسلح جدوجہد درحقیقت پاکستان بلوچ کی آواز ہر قیمت پر دبائے رکھنا چاہتا ہے وہ آواز حلق سے نکلی ہو یا بندوق کی نال سے ریاست اب اس میں فرق کرنے سے قاصر ہوچکی ہے ۔ترجمان نے مزید کہا کہ ایف سی کا ہاسٹل پر چھاپہ اور کتابوں سے خوف کھاکر انہیں تخریبی مواد قرار دینے کا اصل مقصد بی ایس او کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانا ہے۔بی ا یس او آزاد کا ہمیشہ سے یہ سلوگن ہے کہ کتاب ہماری راہشون اور قلم ہمارا ہتھیار ، لیکن غلام دارانہ ذہنیت کا مالک ریاست کو کتاب و قلم سے بھی دشمنی ، اس کے مکروہ عزائم کی ایک جھلک ہمارے سامنے واضح کرتی ہے اور اس طرح کی حرکتوں سے بی ایس او آزاد کی جدو جہد کو نا روک سکتے ہیں اور نا ہی ختم کرسکتے ہیں ۔ جن کتابوں کو ایف سی تخریبی لٹریچر کہہ رہے تھے وہ کتابیں کراچی ،لاہور سمیت دنیا بھر میں کسی بھی بک اسٹال پر بآسانی دست یاب ہیں ۔ اگرریاست ہماری جدو جہد کو روکنا چاہتا ہے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی بلوچوں پر کتابیں لکھی گئیں ہیں ان لکھاریوں اور دانشوروں کو بھی دہشت گرد قرار دیکر اغواء کرکے قتل کردے ۔ یہ ایف سی کی حواسباختگی ہے جو پر امن جمہوری جدو جہد اور کتابوں سے نزدیکی کو تخریب کاری کا نام دیتی ہے ۔ آج ایف سی نے جس طرح بی ایس او کی نشر واشاعت سے جڑے تعلیمی مواد کو تخریبی ظاھر کرکے تصویریں میڈیا میں دکھا ئی ہیں وہ در حقیقت دنیا کے سامنے بی ایس او آزاد کو ایک تخریبکار ادارہ قرار د ینے کی سعی ہے۔ اس سے ریاست کی جمہوریت کے منافی انتہاء پسندانہ سوچ ظاہر ہوتی ہے ۔ اگر کتاب پڑھنا تخریب کاری ہے تو پاکستان اس تخریب کاری کو نہیں روک سکتی ۔ یہ ایف سی کی حواسباختگی ہے جو پر امن جمہوری جدو جہد اور کتابوں سے نزدیکی کو تخریب کاری کا نام دیتی ہے یہ کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں انہوں نے مزید کہاکہ یہ سب کالج کے ہاسٹل پر قبضہ جمانے کی ریاستی ڈرامہ بازی ہے اورایف سی سمیت دیگر ریاستی اداروں کی بی ایس او کی جمہوری عوامی جدوجہد سے خوف کی نشاندہہی ہے ۔