|

وقتِ اشاعت :   January 16 – 2014

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بار پھر اپنی حکومت کا یہ عزم دہرایا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے باوجود حکومت طالبان سے مذاکرات کو اولیت دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں چوہدری اسلم، اے این پی کے رہنما، کئی دوسرے لوگ اور سرکاری اہلکار دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہوئے۔ ہنگو میں ایک خودکش حملہ اسکول کے ایک بچے نے ناکام بنایا۔ دوسری جانب تحریک طالبان نے ایک سے زائد بار یہ اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ حکمران ’’امریکہ کے غلام‘‘ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان امریکی ڈرون حملے بند کرائے۔ اس کے علاوہ ,وہ پاکستانی آئین اور ریاست کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور وہ پاکستان کی جگہ ایک ’’اسلامی امارت‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے اس سخت موقف کے بعد بھی حکومت تذبذب کا شکار ہے کہ ان سے مذاکرات کیے جائیں یا نہیں۔ شاید اس بات کو معلوم کرنے کے لیے مولانا سمیع الحق کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ طالبان سے ملاقات کرکے ان کے حتمی رائے سے حکومت کو آگاہ کریں۔ جلد یا بدیر،یہ ایک بار پھر معلوم ہوجائے گا کہ طالبان آخری بار بھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے ممکنہ 60گروپ ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ایجنڈا الگ ہے۔ صرف اس دہشت گردی کی وجہ سے طالبان کو اربوں روپے کی امداد مل رہی ہے۔ اس میں سعودی خیراتی ادارے اور سعودی علماء شامل ہیں۔ اتنی بڑی رقم اگر حکومت پاکستان ان طالبان گروپوں کو فراہم کرے تو شاید وہ نہ صرف جنگ بندی پر راضی ہوسکتے ہیں بلکہ مستقبل میں امن کی بھی گارنٹی دینے کو تیار ہیں۔ سعودی عرب کے علاوہ افغانستان، امریکہ اور دوسرے ممالک بھی اس پراکسی جنگ میں ملوث ہیں۔ شاید ان ممالک یا ان کے خفیہ اداروں کی جانب سے بھی طالبان کے بعض گروپوں کو امداد مل رہی ہوگی۔ ویسے بھی دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے یہ کسی فرد، انجمن، کمپنی یا پارٹی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان واقعات کی سرپرستی صرف ریاستیں کرسکتی ہیں، فرد یا افراد نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’پیدل سپاہی‘‘ حکومت کا نہ تختہ الٹ سکتا ہے اور نہ ہی ریاست کو شکست دے سکتا ہے۔ ’’پیدل سپاہی‘‘ کو صرف ملک میں زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کے لیے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ اس پیدل سپاہی کو ملک کے کونے کونے میں پھیلادیا گیا ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ابھی ہمارے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کے پاس مذاکرات کا آپشن سرے سے موجود نہیں ہے۔جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور ’’پیدل فوج‘‘ تتر بتر نہیں ہوجاتی، پاکستان میں استحکام مشکل سے ہی آسکتی ہے۔ لہٰذا حکومت اپنا واحد فوجی آپشن استعمال کرے اور دہشت گردوں کو شکست دے، اس سے قبل وہ ملک کو زیادہ نقصان پہنچائیں۔ حکومت ملاؤں کے ساتھ ہنی مون بند کرے اور ایک ہی آپشن پر فوراً عمل درآمد کرے تاکہ ملک میں امن قائم اور خوشحالی ہو اور ملک کے دشمنوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شکست ہو۔