|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2014

روز اول سے ہی وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو یہ بھرپور احساس ہے کہ بلوچ تنازعہ کو حل کئے بغیر ترقی اور سیاست دونوں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں اسلئے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر ڈاکٹر مالک نے یہ اعلان کیا کہ اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے تمام پارٹیوں کی کانفرنس بلائی جائے گی۔ اس کانفرنس میں صرف وہ پارٹیاں شامل ہوں گی جن کی نمائندگی پارلیمان میں ہوگی۔ کانفرنس پہلے اپنے سفارشات مرتب کرے گی اور بعد میں بلوچ مزاحمت کاروں یا ان کے حمایتیوں سے بات چیت کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ ایک بہت زیادہ پیچیدہ سیاسی اور آئینی مسئلہ ہے اس لئے اس کی تیاریوں میں کچھ زیادہ ہی دیر لگ رہی ہے۔ اسی دوران سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس کانفرنس پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے آخری بیان میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ ان کی پارٹی اس میں شرکت نہیں کرے گی۔ حال ہی میں خضدار کے امن عامہ کے مسئلے پر حکومت سے ایک غلطی سرزد ہوگئی جس کا سردار اختر مینگل نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ حکومت کے ایک حمایتی وفد نے خضدار میں امن و امان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے ایک فریق سے بات کی جس پر سردار مینگل شدید ناراض ہوگئے۔ وجہ یہ تھی سردار اختر مینگل اور اس کی پوری پارٹی کو سرکاری اہلکاروں کے ایک ’’پراکسی‘‘ کے برابر لاکھڑا کیا جس پر سردار اختر نے حکومت کے حمایتی وفد سے ملنے سے انکار کیا جس سے معاملات خراب ہوئے۔ اس حادثہ کے بعد صوبائی حکومت نے وفاق سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ حکومت کے حمایتی تمام ڈیتھ اسکواڈ، اور مسلح گروہوں کا خاتمہ کیا جائے۔ ان سے اسلحہ واپس لیا جائے ،ان کی حکومتی اداروں کی سرپرستی ختم کی جائے۔ جس پر وفاق نے حامی بھری مگر ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر حکومت کی سرپرستی یا حکومتی اہلکاروں کی سرپرستی میں چلنے والے گروہوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال میں قدرے بہتری آسکتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے 90فیصد جرائم، اغواء برائے تاوان میں یہ پراکسی گروہ ذمہ دار ہیں۔ خضدار اور وڈھ میں حکومتی طور پر امن بحال کرنے کے بعد حالات میں زیادہ بہتری کے امکانات ہوں گے اور بی این پی دوبارہ اے پی سی میں شرکت کرسکتی ہے۔ مگر معاملات خود حکومتی لیڈروں نے خراب کئے۔ انہوں نے یہ اعتراف کرلیا تھا کہ ان کو اقتدار مل گیا مگر اختیارات نہیں ملے۔ اس اعتراض کے بعد بلوچ مزاحمت کار اور ان کے حمایتی رہنما حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ بے اختیار حکومت سے مذاکرات کا کیا فائدہ؟ مزاحمت کاروں کے علاوہ دو بہت بڑی مقتدر شخصیتیں نواب مری اور سردار مینگل ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حکومت نے ان دونوں بلوچ رہنماؤں سے رابطہ کیا ہے یا نہیں۔ ان سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی اور بلوچ تنازعہ کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مقتدر رہنماؤں سے رابطہ نہیں کیا گیا ہے یا انہوں نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بات تسلیم کرنے کے بعد حکومت کے پاس اقتدار ہے اختیار نہیں، ممکن ہے کہ بلوچ مزاحمت کار اور دونوں مقتدر بلوچ رہنما ء ان سے بات چیت کرنے کو تیار ہوں جن کے پاس اصلی اختیارات ہیں۔ تاہم اے پی سی میں مسلم لیگ اور پی ایم اے پی دونوں پارٹیاں بلوچ تنازعہ میں کوئی کردار ادا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے ۔ان دونوں پارٹیوں کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے جس پر وہ عمل کریں گے۔ بلوچ تنازعہ کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ وہ بلوچ سیاست سے نہ صرف لاتعلق ہیں بلکہ اس کو پسندیدہ نظروں سے بھی نہیں دیکھتے۔ اس لئے اے پی سی میں مکمل شو صرف اور صرف نیشنل پارٹی کا ہوگا اور اس میں زیادہ چمکدار ستارہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک ہی ہوں گے۔ دوسرا کوئی شخص کسی قسم کی اہمیت حاصل نہیں کرسکتا۔ جمعیت علماء ، پی ایم اے پی تو دونوں پشتون جماعتیں ہیں، ویسے ہی یہ دونوں بورڈ سے آؤٹ ہوں گے۔ صرف مسلم لیگ ہی نیشنل پارٹی کے ساتھ کھڑی ہوگی جو مناسب سفارشات پیش کرسکتی ہے جو شاید وفاقی حکومت اور مقتدرہ کو قابل قبول ہوں۔