خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مکمل مایوسی کے بعد جمعیت علماء اسلام کو بڑی جدوجہد کے بعد وفاقی کابینہ میں نمائندگی دی گئی۔ جمعیت گزشتہ تین ادوار میں بلوچستان کابینہ میں اہم ترین وزارتوں کی مالک تھی۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور طالبان کی حکومت کے بعد مقتدرہ نے جمعیت کو زیادہ اہم پوزیشن دے دی۔ اس کو خیبر پختونخوا میں مکمل حکومت اور بلوچستان میں اپنے جائز پوزیشن سے زیادہ نمائندگی دی گئی۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی کی نمائندگی 19ممبران تک پہنچادی گئی۔ اس وجہ سے جمعیت وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ سے زیادہ طاقتور ہوگئی۔ وجہ یہ تھی کہ مقتدرہ امریکہ کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ طالبان کے افغانستان سے اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان کے اساتذہ کو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت دے دی گی۔ مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ مخالف طالبان کو جمعیت کی سپورٹ فراہم کرتی تھی اور یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ بلوچستان اور کے پی کے سرحدوں کو ’’طالبان فرینڈلی‘‘ بنادیا گیا اور جمعیت کو اختیارات دیئے گئے۔ اسی دوران طالبان نے کے پی کے میں اپنی پوزیشن مستحکم کی اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دی۔ اس بار جمعیت کو بلوچستان اور کے پی کے کے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔ مقامی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی کہ جمعیت کو چوتھی بار پھر اتحادی حکومت میں شامل کیا جائے۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان دوبارہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمینی کے خواہش مند تھے اور بڑی جدوجہد کے بعد ان کو یہ عہدہ دوبارہ دیا گیا۔ اس کے فوائد میں مالی اور بین الاقوامی دورے اور پروٹوکول شامل ہیں۔ لیکن ان کی جدوجہد یہ تھی کہ جمعیت کو کسی بھی طرح سے حق حکمرانی سے محروم نہ کیا جائے۔ ہر حال میں جمعیت کو وزارتیں ملنی چاہئیں۔ سات ماہ کی جدوجہد کے بعد جمعیت کو دو وزارتیں دی گئیں۔ اکرم درانی مکمل وزیر اور مولانا عبدالغفور حیدری کو آدھا وزیر بنایا گیا اور اس طرح سے جمعیت کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی مل گئی۔ جمعیت کے دونوں وزراء کو ابھی تک وزارتیں نہیں دی گئیں۔ ظاہر ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے وزارتوں کے مطالبے کے ساتھ ساتھ محکموں کا بھی مطالبہ کیا ہوگا۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کو محکمے دیئے جائیں گے یا نہیں لیکن گمان ہے کہ معاہدے کے مطابق ان کو محکمے دیئے جائیں گے۔ اس طرح سے جمعیت ایک بار پھر حکمران طبقات میں شامل ہوگیا۔ اب وہ زیادہ شدت کے ساتھ طالبان کی مدد کرے گا۔ حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ مولانا فضل الرحمان کا یہ دیرینہ خواب تھا کہ امریکہ ان کو پاکستان کا وزیراعظم بنائے وہ تو نہ ہوسکا البتہ ان کو دوبارہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا، ان کی کچھ تو اشک شوئی ہوئی۔