کوئٹہ ( پ ر) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ریاست نے بلوچستان میں کشت وخون کا بازار گرم رکھا ہوا ہے، ریاستی فورسزمکمل من وعن سے بلوچ نسل کشی میں مصروفِ عمل ہے ،جس میں بدنام زمانہ مارو اور پھینکو (KILL AND DUMP)پالیسی بھی شامل ہے جس میں اب تک 1500 سے زائد بلوچ فرزندوں کو ریاستی عقوبت خانوں میں بد ترین تشدد کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا ہے اور شہید کرنے کے بعد مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے طول و عرض میں پھینکا گیا ہے ۔بلوچ نسل کش پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ دنوں کمسن چاکر بلوچ کو ریاستی اداروں نے تربت کے بھرے بازار سے اغواء کرکے اپنے خفیہ ٹارچر سیل لے جاکر بد ترین تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا گیا،بعد ازاں کمسن چاکر بلوچ کی مسخ شدہ لاش کیچ کور ندی میں پھینک دیا گیامگر ریاستی اداروں نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ڈرامائی انداز میں ناصرف اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہارکردیا بلکہ بوکھلاہٹ میں آزادی پسند بلوچ طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس ٓرگنائزیشن آزاد کو بھی مورودِ الزام ٹہرایا، اور اپنے اس عمل کو چھپانے اور دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر تربت شہر میں اپنے علاقائی گماشتوں کی مدد سے ایک نام نہاد احتجاج کا ڈھونگ بھی رچایا اور یہ اس احتجاج سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی اور کہا کہ کمسن شہید چاکر بلوچ کے شہادت میں بی ایس او آزاد ملوث ہے ،ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست اپنے ان ڈرامہ بازیوں سے حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا ، چاکر بلوچ کے لواحقین ظاہرکرکے جن افرادسے مظاہرہ کروایا گیا وہ در حقیقت ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے مقامی سرغنہ اور ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے لائے گئے کرائے کے مظاہرین تھی ان کو ایف سی کی مکمل سپورٹ اور گھیرے میں احتجاج کروایا گیا ۔اصل میں شہید چاکر کے لواحقین سرے سے تربت میں موجود ہی نہیں ہیں بلکہ وہ پنجگور میں رہائش پذیر ہیں اور اس بات کے گواہ بھی ہیں کہ ان کے لخت جگر کے شہادت میں ریاستی اداروں کے اہلکار اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے شامل ہیں۔ کمسن شہید چاکر بلوچ کو اغواء کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرناپھر اس قتل کو پرامن طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سر ڈالنا درحقیت اس بات کی غمازی ہے کہ ریاست بلوچستان میں نفسیاتی شکست کھاچکی ہے۔