|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2014

مسلح طالبان نے ایکسپریس نیوز کے ڈی ایس این جی پر حملہ کرکے تین کارکنوں کو گاڑی کے اندر ہی ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ ناظم آباد میں پیش آیا جہاں پر ڈی ایس این جی گاڑی کھڑی تھی جس میں چار کارکن سوار تھے ۔ حملے میں تین ہلاک ہوگئے اور کیمرہ مین بچ گیا کیونکہ وہ گاڑی کے اندر سیٹ پر لیٹا ہوا تھا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق دو دہشت گرد شلوار قمیض پہنے گاڑی کے قریب آئے، اپنی موٹر سائیکل گاڑی کے پیچھے کھڑی کردی اور گاڑی کے قریب آکر شیشے کی کھڑکی سے گاڑی کے اندر فائر کھول دیا جس میں تین کارکن ہلاک ہوگئے۔ کیمرہ مین جو گاڑی کے اندر سیٹ پر لیٹا ہوا تھا نظر نہ آنے کی وجہ سے بچ گیا۔ ان ہلاک کارکنوں میں ایک محافظ، ڈرائیور اور تکنیکی ماہر تھا، جو بچ گیا وہ کیمرہ مین تھا۔ ملزمان نے 9ایم ایم کی پستول استعمال کی اور پولیس کو اس کے 14خول ملے۔ طالبان کے شاہد اللہ شاہد نے ایکسپریس نیوز کو فون کرکے قتل عام کی ذمہ داری قبول کی اور ساتھ ہی یہ بھی الزام لگایا کہ نجی ٹی وی چینل طالبان کے خلاف ہے اور ان کے خلاف پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ اگر میڈیا ان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے تو طالبان اس طرح کے حملے کرتے رہیں گے۔ بہر حال میڈیا اس کو آزادی صحافت پر حملہ تصور کرتا ہے، طاقت کے استعمال سے آزادانہ رائے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ معاملہ سنگین ہے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ انہوں نے میڈیا کے تین کارکنوں کو شہید کیا ہے، ان کا گناہ کچھ نہیں تھا۔ اگر طالبان کو کسی ایک خبر پر اعتراض ہے یا کوئی پروگرام پسند نہیں ہے تو وہ اختلاف رائے کا اظہار کریں، جن کا ہر ادارہ نوٹس لے گا مگر یہ کوئی بات نہیں کہ طالبان صرف اختلاف رائے پر کارکنوں کا قتل عام کر تا پھرے۔ میڈیا میں آئے دن حکومت اور اس کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس دلیل کے ساتھ کہ اختلاف رائے کی سزا موت ہے تو حکومت اور اس کے طاقتور اداروں کو روزانہ اس طرح کا قتل عام کرنا چاہئے۔ دوسری جانب حکومت میں طالبان سے متعلق ایک نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور ان کی ہر دہشت گردی کی کارروائی کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ بات واضح اور صاف ہے کہ طالبان کی ایک متوازی حکومت پاکستان میں قائم ہے۔ ان کی اپنی ملیشیاء اور فوج ہے اور ان کی مرضی ہے کہ جس کو چاہیں سزائیں دیں، حکومت ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے اس کو فوراً بند ہونا چاہئے۔ طالبان کا یہ حق نہیں کہ وہ کسی بھی علاقے پر حکومت کی رٹ قائم نہ ہونے دیں۔ ہم نے فوج اس لئے رکھی ہے کہ یہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے اور کسی بھی گروہ یا جماعت کو یہ اجازت نہ دے کہ وہ اپنی نجی فوج رکھے اور عوام اور ملکی اداروں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کریں۔ پاکستانی میڈیا یہ متفقہ طور پر مطالبہ کرے کہ حکومت قوت کا استعمال کرکے پورے ملک کو عوام کے لیے مکمل طور پر محفوظ بنائے۔