با الآخرپاکستان کو یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوہی گیا جب ملک میں مکمل طور پر شریفوں کا راج قائم ہے۔ شریفوں کے راج کے قیام کا مطلب ہر گز یہ اخذ نہ کیاجائے کہ مملکت پاکستان میں اب شرافت کا دور دوراہوچکا یا امن، چین و سکون قائم ہوچلا بلکہ میری مراد اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں یعنی حمکرانی کے ساتوں طبق شریفوں کا راج قائم ہوچکا ہے۔
لگتا ہے یہ منطق لوگوں کو مکمل طور پر ہضم نہیں ہوپارہی تو چلو آسان الفاظ میں سمجھا دیتے ہیں۔ایک جانب ملک میں شریف النفس،،،خواہ نام کے ہی کیوں نہ ہوں،، ممنون حسین صدر مملکت کی کرسی پر براجماں ہیں تو وزیر اعظم کی چٹان جیسی مضبوط کرسی پر مسلم لیگ کے روح رواں اور پنجاب کے شیر،،انتخابی نشان ،،، میاں نواز شریف پدارے ہوئے ہیں۔دوسری جانب ملک کی طاقتور ترین ، حقیقی اور دائمی حکمران تنظیم یعنی فوج کی سربراہی جنرل راحیل شریف کے ناتواں کاندھوں پر ہےتو ملک کے سب سے بڑے صوبے یا مائی باپ پنجاب کی باگ ڈور چھوٹے میاں یعنی شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہے ۔اور گذشتہ چند سالوں سے شتر بے محار کی طرح سر پٹ دوڑنے اور صرف من پسند فیصلے صادر کرنے والی ،،بلوچستان میں عام تاثر یہی ہے،،،عدلیہ کو ملتان شریف کے جسٹس ٹصدق حسین جیلانی نے سنبھالا ہوا ہے ۔
سیاسی شرفاہ اور ان کے حواریوں کے بلند و بانگ دعوئوں سے لبریز حکمرانی کے قیام کے بعد موجودہ حالات میں ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہرین بہتیں اورعالم چار سو امن و آشتی کا بول بالا ہوتا،بے روزگاری کا نام و نشان نہ ہوتا اور لوگ بلا خوف وخطر اپنی عبادت گاہوں اور دفاتر میں جاتے، بچے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے اور کاروباری حضرات کلمہ طیبہ پڑھ کر گھر سے نکلنے کی بجائے بسم اللہ پڑھ کر اپنی دکانوں کے شٹر اٹھاتے۔
مگر شومئی قسمت کہ یہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، آج بھی ملک میں ڈھائی سو روپے کی دہاڑی لگانے والے پولیو ورکرز کراچی تا خیبر کہیں بھی محفوظ نہیں، لوگوں کو بروقت خبریں پہنچانے پر مامور میڈیا ورکرز آسان ٹارگٹ اور ان کا خون پانی سے سستا ہوچکا ہے، مچھلیاں بیچ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالنے والا تربت کا دس سالہ چاکر بھی مجاہدین ملت کے سینے میں کانٹے کی طرح چھبتا رہا اور اس معصوم پھول کو بغیر کسی گناہ کے موت کی ابدی نیند سلا کر ہی انہیں آرام نصیب ہوا۔
حیرت صد حیرت کہ دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی واحد ایٹمی طاقت اور اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی مملکت پاکستان کی بنیادیں بلوچستان کے ایک کالج میں زیر تعلیم طالب علموں کے پاس سے برآمد ہونے والی محض چند غیر ملکی رہنمائوں کی کتابوں سے لرز جائیں۔ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی کے دعوے کی قلعی اس نام نہاد کاروائی سے کھل جاتی ہے۔
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔
شرم کا مقام یہ بھی ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی دنیا کی واحد اسلامی مملکت کو خطرہ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے دونوں اقسام کی اشرافیہ، سیاستدانوں،دو کو چار کرنے والے سرمایہ کاروں، سند یافتہ ڈاکوئوں اور مافیا ز سے نہیں بلکہ اسے زیادہ خطرہ کوئٹہ سے براستہ کراچی اسلام آباد تک پیدل مارچ کرنے والے ماما قدیر اور اس کے نہتے ساتھیوں سے ہے جو اپنے پیاروں اور لاپتہ کیے جانے والے ان کے لخت جگروں کی بازیابی کے لیے دن رات ایک کرنے والوں سے ہے۔
اپوزیشن میں رہتے ہوئے بلوچستان کے مسائل اور ناناصافیوں کا دکھڑا سنا کر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے رائیونڈ کے امیر المومنین اور اس کے ولی عہد کی حکمرانی اور ان کی اپنی راج دھانی یفنی پنجاب میں ماما قدیربلوچ کو ایجنسیوں کے سادھ کپڑوں میں ملبوس مسلح اہلکاروں کی جانب سے دن دہاڑے دھمکیاں میاں صاحبان کی ماضی کی پھر تھیوں اور جھوٹی اور طفل تسلیوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ماما قدیر بلوچ جب سوشل میڈیا پر، کیوں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جاری لانگ مارچ کی کوریج پر قومی میڈیا کے پر جل جاتے ہیں، آ کر یہ کہتے ہیں پنجاب کی حدود میں راجن پور کے قریب سادہ کپڑوں میں ملبوس چار مسلح افراد نے ان کے پاس آکر انہیں لانگ مارچ ختم کرنے یا سنگین نتائج کے لیے تیار رہنے کی دھمکیاں دیں ۔ یہ بات کہنے کا ساتھ ان کا یہ کہنا بھی کہ ایسی دھمکیاں انہیں سچ گوئی اور حق کے راستے پر چلنے سے نہیں روک سکتیں۔ اور یہ کہ وہ لانگ مارچ لاپتہ افراد کی بازیابی تک جاری رکھیں گے۔اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے اس مرد مجاہد یا مرد حر کا عزم دیدنی تھا
قابل غور بات یہ ہے کہ ماما قدیر نے،،، لگو ر حمکرانوں ،،،سے تحفظ کی اپیل کرنے کی بجائے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اور لانگ مارچ میں شریک دیگر افراد کی جان کو خطرات لاحق ہیں کیوں کہ حکمران انہیں تحفظ دینے کی بجائے انہیں ڈرانے اور دھمکانے پر اتر آئے ہیں
ماما قدیر کی یہ اپیل ملک کے شریف مہاراجوں کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں جو اس زعم میں ہیں کہ شاید تیسری بار ملک کا حمکران بن جانے سے وہ واقعی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔اگر واقعی ایسا ہے تو انہیں سیاسی قلابازی لگا نے یا کرتب دکھانے میں دیر نہیں لگانی چائیے ، مگر شاید حقیقت اس سے با الکل مختلف اور ایک سو اسی ڈگری کے زاویے پردائرے کے دوسری جانب پر موجود ہے۔
نام نہاد حکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چائیے کہ ملک میں سیاستدان صرف نام کے حکمران رہے ہیں۔ اصل طاقت کا سرچشمہ کتابوں اور نعروں کی حد تک عوام ہیں جبکہ حقیقت میں آج ملک میں غیبی طاقتیں خفیہ والوں کےنام سے برسراہ اقتدار ہیں اور اسلام آباد کے حمکران آپبارہ اور پنڈی والوں کی کارکردگی پر اوتھ کمشنر کی طرح ٹپہ ثبت کرنے کے لیے مسند اقتدار پر براہ جماں ہیں ۔
اب بھی وقت ہے کہ اگر سیاستدان حالات کا ادراک کرتےہوئے کرپشن، بے حسی، مصلحت پسندی ، اقربا پروری، کو ترک کرکے، عوام کے ساتھ یک جان و قالب ہوکر فوجی جنتا کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی ترکی کی طرح کوئی طیب اردگان ملک کا وزیر اعظم ہوگا۔ آمروں اور طالع آزمائوں کو اپنے کرتوں کے لیے قانون کا سامنا کرنا ہوگا اور ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں کی طرح پھر کسی کو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کرنے کا جتن نہیں پڑے گا ۔
مگر شاید دلی ہنوز دور است ۔