|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2014

برازیل میں رواں سال فٹبال کے عالمی کپ کے انعقاد کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد پرتشدد تصادم ہوئے ہیں۔ ساؤ پاؤلو پولیس کے مطابق اس نے 128 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ دریں اثنا پرتشدد واقعات میں ایک کار کو نذر آتش کر دیا گيا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دکانوں، بینکوں اور پولیس کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس تشدد کی وجہ سے حکام کو ساؤ پاؤلو شہر کی 460 ویں سالگرہ پر ہونے والی بعض تقریبات کو بھی منسوخ کرنا پڑا۔ اس سے قبل ساؤ پاولو میں تقریباً ڈھائی ہزار مظاہرین نے سڑکوں پر اترکر فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد پر ہونے والے اخراجات کی مخالفت کی۔ مظاہرین مرکزی ساؤ پاؤلو میں پرچم لہرا رہے تھے اور بینرز لیے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ نعرہ لگا رہے تھے کہ ’یہاں کوئی کپ نہیں ہوگا۔‘ سوشل میڈیا کی سائٹ ٹوئٹر پر بھی برازیل کے کئی شہریوں نے ’فيفا واپس جاؤ‘ کہہ کر فٹبال کے عالمی کپ کے انعقاد کی مخالفت کی ہے۔ واضح رہے کہ فيفا فٹ بال ورلڈ کپ کرانے والا ریگولیٹری ادارہ ہے۔  اسی طرح کے مظاہرے ریؤ ڈی جنیرو اور برازیل کے دوسرے شہروں میں بھی ہوئے ہیں۔ برازیل کے ایک طالب علم ليوناردو پیلےگرني دا سانتوس نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ’ورلڈ کپ میں لاکھوں لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے ہم خلاف ہیں۔‘ انھوں نے کہا: ’اس پیسے کا استعمال بہتر صحت، تعلیم، اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی بہتر سہولیات کے لیے کیا جانا چاہیے۔‘ برازیل کے شمال مشرقی حصے میں واقع نیٹال شہر، جہاں ورلڈ کپ کے میچز ہونے والے ہیں وہاں سے بھی 15 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گذشتہ سال بھی تقریبا 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے برازیل کے مختلف شہروں میں ناقص عوامی سہولیات، بدعنوانی اور ورلڈ کپ کے انعقاد پر ہونے والے اخراجات کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ مظاہروں کی وجہ سے صدر دیلما روزیف کو سیاسی اصلاحات کے لیے ریفرنڈم کی پیشکش بھی کرنی پڑی تھی۔