|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2014

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عدالت سے بوسٹن بم دھماکوں کے ملزم جوہر سارنائیف کے لیے سزائے موت کی استدعا کرے گا۔ امریکہ کے اٹارنی جنرل ایریک ہولڈر نے ایک بیان میں ان بم دھماکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعے کی جو نوعیت ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والےل نقصان نے ہمیں اس فیصلے پر مجبور کیا ہے۔‘ جوہر کی عمر بیس سال ہے اور ان پر تیس الزامات لگائے گئے ہیں جس میں قتل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال بھی شامل ہے۔ان الزامات کے ثابت ہونے پر ممکنہ طور پر انھیں سزائے موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ بوسٹن میں اپریل سنہ 2013 میں میراتھن کے دوران بم دھماکوں کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 260 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔ بوسٹن کے نواحی قصبے واٹرٹاؤن پولیس چیف ایڈ ڈیو کے مطابق جوہر سارنائیف نے اپنے بھائی کو بھی پولیس سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد گاڑی کے نیچے کچل دیا تھا۔ جوہرِ سارنائیف نے اقبالِ جرم نہیں کیا اور ابھی تک ان کے مقدمے کی تاریخ بھی نہیں دی گئی۔ پراسیکیوٹرز نے الزام عائد کیا ہے کہ جوہر اور ان کے مرحوم بھائی تیمرلان سارنایف نے دو پریشر کھوکھر بم بنا کر میراتھن کے آخری لائن کے قریب رکھ دی تھیں۔ جوہر پر ایک پولیس افسر کو ہلاک کرنے اور کار چوری کا بھی الزام ہے۔ ان کے اوپر سزائے موت کے وفاقی قانون کے تحت الزامات عائد کیے جائیں گے کیونکہ میسیچیوسٹس میں سنہ 1984 میں سزائے موت ختم کی گئی تھی۔ سارنائیف برادران کا تعلق چیچنیا سے تھا، اور انھوں نے اپنا بچپن اس جنگ زدہ علاقے میں گزارا تھا۔ تاہم گذشتہ ایک عشرے سے وہ بوسٹن شہر کے نزدیک کیمبرج قصبے میں رہتے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں دنیا کی مشہور ہارورڈ یونیورسٹی قائم ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ سارنائیف برداران نے یہ بم دھماکے مسلم ممالک میں امریکی فوجی کارروائیوں کا بدلہ لینے کے لیے کیے تھے۔ جوہر نے گرفتاری سے تھوڑی دیر قبل ایک نوٹ لکھا تھا: ’ہم مسلمان ایک جسم ہیں۔ تم ایک کو نقصان پہنچاؤ گے تو ہم سب کو نقصان پہنچے گا۔‘ امریکی حکام کو شبہ ہے کہ دونوں بھائیوں کی ماں زبیدہ سارنائیف نے اپنے بیٹوں کو انتہاپسندی کی طرف دھکیلا۔ دونوں بھائی حملوں سے قبل اسلامی عسکریت پسندوں کی ویب سائٹیں پڑھتے رہے تھے۔ دوستوں کا کہنا ہے کہ چھوٹا بھائی بڑی مقدار میں چرس پیتا تھا اور نماز کبھی کبھار ہی پڑھتا تھا۔