|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2014

اکثر افسران لوگوں کو گمراہ کن اطلاعات فراہم کرتے رہے ہیں ۔ خصوصاً گوادر سے متعلق دنیا بھر کے لوگوں کو گمراہ کن معاشی اشارے دے رہے ہیں جو زمینی حقائق کے برعکس ہیں ۔ گوادر پورٹ کا منصوبہ ابھی مکمل ہی نہیں ہوا ہے اور اسکا بنیادی ڈھانچہ بھی تیار نہیں کہ پورٹ کو فعال کیا جائے ۔ یہ گمراہ کن اطلاعات یا اشارے صرف اس وجہ سے دئیے جارہے ہیں کہ ملک میں قومی معیشت سے متعلق مکمل مایوسی ہے اور جس سے امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوگیا ہے ۔ 2007ء کے بعد جب چینی اہلکاروں نے گوادر پورٹ کے منصوبے کے پہلے فیز کو مکمل کر کیا، حکومت نے اس وقت سے لے کر آج تک بندر گاہ کو بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس بلوچستان میں ان شاہراہوں پر کام کو روک دیا گیا اور اس کے فنڈ جاری نہیں کیے جن کا مقصد ملک کے دوسرے حصوں کو گوادر کی بندر گاہ سے ملانا تھا۔2007کے بعد صرف ساحلی شاہراہ کا ایک حصہ مکمل ہوگیا جس سے گوادر اورکراچی کو ملایا گیا ۔ گوادر کو جیونی سے ملانے کا حصہ بعد میں مکمل ہوا ۔ باقی تمام شاہراہوں پر کام روک دیا گیا ۔ ان میں بعض شاہراہیں گوادرتا پنجاب ‘ سندھ اور اندرون صوبہ خضدار اور کوئٹہ کے راستے چمن کی شاہراہ شامل ہے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کا یہ خیال ہے کہ ان شاہراہوں کے فنڈ جان بوجھ کر روک دئیے گئے تاکہ بلوچستان کی معاشی ترقی کو روک دیا جائے یا اس کی رفتار کو کم سے کم کیا جائے ۔ حالیہ دنوں میں صوبائی کابینہ کو اس بارے میں بریفنگ دی گئی اور یہ بتایا گیا کہ موجودہ سال وفاقی حکومت نے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے صرف پچیس فیصد فنڈ فراہم اور خرچ کیے ۔ بلوچستان کواتنی چھوٹی رقم گزشتہ نو ماہ میں ملی ۔ باقی تین ماہ شاید یہ دس فیصد اور خرچ کریں اس طرح وفاقی پی ایس ڈی پروگرام کا 65فیصدبلوچستان کو ملنے کا امکان نہیں ہے ۔ ویسے ہر سال یہی صورت حال ہے کہ بلوچستان کے حصے سے پچاس فیصد سے زیادہ بجٹ کاٹ دیا جاتا ہے ۔حالانکہ بلوچستان ملک کا آدھا حصہ ہے ۔ یہ صورت حال دوسرے صوبوں میں نہیں ہے ۔ ان صوبوں میں منصوبے سال دو سال کے لئے کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں ۔ دہائیوں نہیں ‘ بلوچستان کے اکثر میگا پروجیکٹ تین تین دہائیوں میں مکمل ہوئے ۔ گوادر پورٹ کا منصوبہ 1960کا تھا اس کا پہلا فیز 2007ء میں مکمل ہوا ۔ چینی گوادر میں سرمایہ کاری کے لئے آئے ہیں وہ مایوس ہو کر وطن واپس جارہے ہیں ۔ ان میں شدید مایوسی ہے ۔ ان کے لئے کوئی کام نہیں نہ ہی بندر گاہ کوفعال بنایا جارہا ہے ۔ اکثر چینی مایوسی کے عالم میں گوادر چھوڑ چکے ہیں ۔ ایسے شواہد قطعاً نہیں ہیں کہ بندر گاہ کا بنیادی ڈھانچہ مستقبل قریب میں مکمل ہوگا ۔ آج کل یہ منصوبہ ہے کہ گوادر کے قریب ایکسپورٹ پروسسنگ زون EPZبنایا جائے گا جو 46000ایکڑ پر محیط ہوگا جس میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کریں گے ۔ اس سے قبل صوبائی حکومت کا منصوبہ تھا کہ گوادر کے قریب انڈسٹریل اسٹیٹ بنایا جائے ۔ اس کے لئے اربوں روپے کھارے پانی کو صاف کرنے کے پلانٹ لگائے گئے۔ اربوں روپے ڈوب گئے مگر ان پلانٹس سے ایک گیلن پانی نہیں ملا ۔سابق وزراء نے اربوں روپے ہڑپ کر لیے کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ۔ مقامی روایت ہے کہ کرپٹ عناصر ہی بلوچستان میں مقتدرہ کا اثاثہ ہیں ان کو کبھی بھی کچھ نہیں کہاجائے گا۔ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے کہ گوادر کے لئے صاف پانی اور بجلی کا انتظام کرے ۔ پانی کے لئے گوادر کے قرب وجوار میں پانچ بڑے دریا بہتے ہیں جہاں ہر سال دو سال میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہوتی ہے ۔ ان پر ڈیم بنا کر حکومت گوادر پورٹ کی تجارتی ضروریات دس سال تک پوری کر سکتی ہے ۔ سب سے اہم ترین ڈیم دریائے دشت پر بنایا جائے اور پانی کو سمندر میں جانے سے روکا جائے یہ دریائے دشت کے زیریں علاقے میں واقع ہے جو گوادر پورٹ کی ضروریات پوری کرے گا ۔ گزشتہ ادوار میں یہاں سے زیر زمین پانی پمپ کرکے گوادر پہنچایا جاتا تھا اس منصوبے کا افتتاح سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو نے کیا تھا۔ ملک میں مکمل طورپر معیشت سے متعلق مایوسی پائی جاتی ہے کہ معیشت تباہی کی جانب جارہی ہے ۔ پہلے یہ الزام تھا کہ دولت کا ارتکاز کراچی میں ہے اور اب لاہور اور اس کے گردونواح میں۔ یہ تبدیلی 1986ء سے شروع ہوئی اور دولت کا ارتکاز حالیہ سالوں میں مکمل ہوا ۔ بلوچستان کو اس کا جائز حصہ نہیں ملا ۔ اگر ملا تو جائز حصے سے زیادہ غربت ‘ بے روزگاری ‘ پسماندگی ۔ مایوسی کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے ۔ سوائے چند ایک استثنائی مثالوں کے، افسر اعلیٰ سے لے کر پولیس کانسٹیبل تک تمام کارخانے دار‘ سیٹھ ، ساہوکار‘ ممبران اسمبلی کرپٹ ہیں اور اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کررہے ہیں ۔