|

وقتِ اشاعت :   April 5 – 2014

افغانستان میں صدارتی انتخابات میں ہفتے کو پولنگ کا اہم مرحلہ اکا دکا واقعات کے علاوہ ملک کے بیشتر علاقوں میں پرامن طریقے سے انجام پذیر ہو گیا ہے۔ صدارتی انتخابات کے دوران طالبان کی جانب سے طاقت کے ذریعے انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ ان دھمکیوں اور شدید بارش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دارالحکومت کابل میں لوگوں نے بڑی تعداد میں انتخابی عمل میں حصہ لیا اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ملک کے دیگر حصوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں بھی پولنگ میں لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جن میں عورتوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ پولنگ کے دوران ملک کے کسی حصے سے تشدد اور دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ پولنگ کے موقعے پر ملک بھر میں سخت سیکیورٹی اقدامات کیے گئے تھے اور اسے ایک بہت بڑا سیکیورٹی آپریشن قرار دیا جا رہا تھا۔ بھاری ووٹر ٹرن آؤٹ کی بنا پر پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹہ توسیع بھی کر دی گئی تھی اور پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی جو لوگ پولنگ سٹیشنوں کے باہر کھڑے تھے انھیں اپنا ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔ کابل سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شدید بارش اور طالبان کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود شہر میں میلے کا سا سماں ہے۔ افغانستان کی انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ ووٹروں ہیں۔ ملک بھر میں تقریباً چھ ہزار پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ ہفتے کی صبح چیف الیکشن کمشنر احمد یوسف نورستانی نے ووٹ ڈال کر پولنگ کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ ادھر طالبان کی جانب سے انتخابی عمل سبوتاژ کرنے کی دھمکی کو ناکام بنانے کے لیے افغانستان میں ایک بڑا سکیورٹی آپرشن جو پولنگ سے قبل شروع کیا گیا تھا پولنگ کے بعد بھی جاری رہا۔ ہفتے کی صبح شمالی افغانستان سے بی بی سی کی کیرن ایلن نے اطلاع دی تھی کہ پولنگ سٹیشنوں کے باہر طویل قطاریں بننا شروع ہو گئی ہیں اور ووٹنگ کے عمل میں تیزی آنا شروع ہو رہی ہے۔ تاہم مغربی صوبے ہیرات اور کابل سے شمال مشرق میں واقع صوبے کپسا میں موسمی حالات اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے کچھ پولنگ سٹیشنوں کو بند کرنے کی بھی اطلاعات تھیں۔ اس کے علاوہ کچھ سٹیشنوں پر بیلٹ پیپر وقت پر نہ پہنچنے کی بھی موصول ہوئی تھیں۔ آج صبح ٹی وی پر براہِ راست نشریات میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے الیکشن کمیشن کے چیئرمین احمد یوسف نورستانی نے تمام افغانوں کو ووٹ ڈالنے کی تائید کی۔ کابل میں حفاظتی تدبیر کے طور پر جمعے کی دوپہر سے ٹریفک کو داخل ہونے نہیں دیا جا رہا تھا۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مبصرین کی ان انتخابات کے بارے میں توقعات میں بہتری آ رہی ہے۔ افغان صدارتی انتخابات میں آٹھ امیدوار حصہ لے رہے جن میں اشرف غنی احمد زئی، زلمے رسول اور عبداللہ عبداللہ کو اہم امیدوار قرار دیا جا رہا ہے جب کہ دیگر امیدواروں میں محمد داؤد سلطان زئی، قطب الدین جلال، گل آغا شیرزئی اور ہدایت امین ارسلہ شامل ہیں۔ افغانستان میں سنیچر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقعے پر طالبان کی طرف سے حملے روکنے کے لیے دو لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ نئے منتخب ہونے والے صدر حامد کرزئی کی جگہ لیں گے جو سنہ 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے اقتدار میں ہیں تاہم وہ افغان آئین کے تحت مسلسل تیسری بار صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ لیکن مبصر کہتے ہیں کہ آگے مشکلات بھی ہیں اور افغانستان سے نیٹو کے انخلا کے تناظر میں طالبان کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر سکیورٹی کے سخت اتنظامات کیے گئے ہیں اور طالبان کے حملے روکنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ طالبان نے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ افغانستان میں بی بی سی کے نامہ نگار ڈیوڈ لیون کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک بہت بڑے فوجی آپریشن کے ذریعے حالیہ انتخابات کو سکیورٹی فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق ہر پولنگ سینٹر کے اردگرد سکیورٹی کے حصار بنائے گئے ہیں جس کے پہلے دائرے میں پولیس اور باہر کی طرف سینکڑوں فوجی تعینات ہیں۔ حکام کے مطابق رائے دہندگان کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر پولیس اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔ نامہ نگار کے مطابق بین الاقوامی مبصرین کو امید ہے کہ سخت حفاظتی انتظامات اور دھوکہ دہی کے خلاف نئی ضمانت کے بعد حالیہ انتخابات گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں شفاف ہوں گے۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہوگا۔ ان صدارتی انتخابات میں آٹھ امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں دو سابق وزرائے خارجہ زلمے رسول، عبداللہ عبداللہ، اور سابق وزیرِ خزانہ اشرف غنی بھی شامل ہیں۔ انتخاب سے پہلے تشدد کے واقعات جاری ہیں اور جمعے کو ایک شخص نے فائرنگ کر کے ایک غیرملکی خاتون صحافی کو ہلاک اور دوسری کو شدید زخمی کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور پولیس کی یونیفارم میں ملبوس تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹر نے پولیس حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس حملے میں اینجا نیدرنگہس ہلاک جب کہ کیتھی گینن شدید زخمی ہوگئیں۔ دونوں صحافی خواتین ایسوسی ایٹیڈ پریس نیوز ایجنسی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بھر میں انتخابات کے لیے سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔