|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2014

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں مسخ شدہ  تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی اور ظلم و جبر کے تسلسل سے ثابت ہوچکا ہے کہ موجودہ جمہوریت بھی حزب ماضی خون آلودہ ہے اسمبلیوں میں ہمارے سروں پر کوئی تاج نہیں رکھے جن سے مستعفی ہونے کیلئے ہمیں سوچ بچار کرنا پڑے حکمران بلوچستان کے مسئلے پر یا تو غیر سنجیدہ ہے اور یا پھر ان کے پاس اختیارات ہی نہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ مذاکراتی عمل ہم طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کو ایک صف میں کھڑا نہیں کرتے کیونکہ طالبان کا ایشو کچھ اور ہے اور بلوچ جہد کاروں کا مسئلہ کچھ اور ہے اگر طالبان سے بات چیت ہوسکتی ہے سیز فائر اور قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ لیا جاسکتا ہے تو یہ عمل بلوچستان میں دہرانے میں کیا قباعت ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار طالبان کو تو اپنا سمجھتی ہے مگر بلوچوں کو اپنا نہیں سمجھتی انہوں نے کہاکہ ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات ہوسکتی تھی مگر اس کیلئے ایک راہ متعین کرنا ہوگی ہم ہر دور میں یہ بات کی کہ مذاکراتی عمل کے آغاز کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ ناگزیر ہے موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی ان پر واضح کیا تھا کہ اعتماد کی بحالی کیلئے نیک نیتی پر مبنی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اپنا ہم نے یہی موقف ہم نے سپریم کورٹ میں چھ نکات کی صورت میں پیش کیا مگر اس وقت کی حکومت نے نہ صرف اس کو ماننے سے انکار کیا بلکہ روایتی غیر سنجیدگی بھی برقرار رکھی ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکمران بلوچستان کے مسئلے پر اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو جو لوگ پیدل لانگ مارچ کرتے ہوئے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد گئے ان کو انصاف مل جاتا کیونکہ ان کا مطالبہ آئین میں ترمیم یا پھر آزادی کا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ریاست کے اداروں سے انصاف کے متقاضی تھے ماما قدیر کو جو معاونت ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل سکی تاہم جہاں بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے علاقے تھے ان میں ہم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا مگر افسوسناک امر ہے کہ پنجاب میں ماما قدیر کو سپورٹ نہیں دی گئی بلکہ انہیں ان کی لانگ مارچ معطل کرنے سے متعلق سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں انہوں نے کہاکہ ہم نے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور جمہور کے تحفظ کی بات کی ہے آئین بنانے میں ہمارے بزرگ شامل تھے مگر آئین کی قسمیں اٹھانے والوں نے ہمارے حقوق غصب کئے مگر انہیں آج بھی رڈ کارپیٹ پر سلامی دی جاتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاست کے کون سے ادارے کو نہیں آزمایا گیا جہاں تک بات ماما قدیر کی ہے تو انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا عدلیہ کے سامنے پیش ہوئے مگر ان کی شنوائی نہیں ہوئی اور جب تمام راستے بند ہوجائیں تو اس کے بعد ان کا حق بنتا ہے کہ وہ عالمی اداروں سے انصاف کی اپیل کریں انہوں نے کہاکہ بلوچستان سے گذشتہ دس سال کے دوران جو لوگ لاپتہ ہوگئے کیا وہ آئین اور قانون کے مطابق تھا مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی آئین میں کون سی شک اجازت دیتی ہے ہم نے سرکار کو پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ آئین میں کوئی ایسی ترمیم کردے کہ اپنا حق مانگنے والا بلوچ واجب القتل ہے اور بلوچ کو اس کے حقوق مانگنے پر مار دینا آئین اور قانون کے عین مطابق ہے ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم شکوہ نہیں کرینگے انہوں نے کہاکہ بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ماضی کی باتیں بھول جاتے ہیں آج لوگ پہاڑوں پر بیٹھے ہیں کیا انہوں نے آئین کا حلف نہیں لیا تھا شہید نواب اکبر خان بگٹی وہ شخصیت تھے جنہوں نے نہ صرف اہم عہدوں پر اپنے فرائض سر انجام دیئے بلکہ قائداعظم محمد علی جناح کو کوئٹہ ایئر پورٹ پر خوش آمدید بھی کہا مگر بعد وہ کونسے عوامل تھے کہ جنہوں نے ان لوگوں کو پہاڑوں پر جانے کیلئے مجبور کردیا بلوچستان میں حالات کی خرابی کے ذمہ داروں کو تلاش کرنا ہوگا آزادی کے مطالبے کی حمایت کرنا یا نہ کرنا الگ بات ہے یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوتوں کو تلاش کیا جائے جنہوں نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا بلوچستان نیشنل پارٹی روز اول سے حق خود ارادیت کی جدوجہد کررہی ہے جس کا مطالبہ غیر قانونی نہیں کیونکہ اسی حق خود ارادیت کے کشمیری مطالبے کی حمایت کی جاتی ہے یہ ہمارے لئے کیوں جائز نہیں ہوسکتا ہم سیاسی لوگ ہیں تمام تر زیادتیوں کو بھلا کر ہم نے سیاسی عمل میں حصہ لیا مگر حالیہ انتخابات میں ہمارے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا ہم نے تو کوئی بندوق نہیں اٹھائی تھی مگر ہمیں ووٹ ڈالنے والوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں پہاڑوں پر جانیوالے بھی کسی دور میں اسی سیاسی عمل کا حصہ تھے مگر در حقیقت خود ریاست کو اپنی جمہوریت پر یقین نہیں موجودہ دور حکومت میں بھی ہمارے ضلعی صدر سمیت 16 ورکرز شہید کئے گئے بلدیاتی انتخابات کے بعد ہمارے کونسلر کو مارا گیا ایسی خون زدہ جمہوریت کے فوائد حاصل نہیں ہوسکتے آج ایک بار پھر منتخب حکومت کا واویلا کیا جارہا ہے منتخب حکومت تو ماضی میں بھی تھی اور پارلیمنٹ بھی موجود تھا مگر اس میں بھی ہمیں نعشوں کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں ملا ہم سمجھتے ہیں کہ یا تو حکمران بلوچستان کے مسئلے پر غیر سنجیدہ ہیں یا پھر اس ضمن میں ان کے پاس اختیارات ہی موجود نہیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات ہوئی جس میں ہم نے ان کی جانب سے کی گئی یقین دہانیوں کی یاد دہانی کرائی تھی کہ جن یقین دہانیوں پر ہم پارلیمنٹ کا حصہ بنے اسمبلیوں میں آئے اور جمہوریت کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ظلم و ناانصافیوں کیخلاف پہاڑوں پر تو نہیں جاسکتے مگر بد اعتمادی کی فضاء کو واضح کرکے اپنا موقف رکھ سکتے ہیں ظلم جبر استحصال اور ناانصافیوں کا تدارک نہ کیا گیا تو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی زیر غور ہے انہوں نے کہاکہ مجھے کبھی بھی شیخ مجیب الرحمان بننے کا شوق نہیں رہا اگر دیکھا جائے تو بنگالی 1970ء کے بعد باغی بنے پہلے یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے لیکر رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگایا مگر بعد ازاں وقت اور حالات نے انہیں غدار بنا دیا میرے چھ نکات جو ہم نے سپریم کورٹ میں پیش کئے تھے نہ تو وہ غیر قانونی اور نہ ہی غیر آئینی تھے شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات میں بھی علیحدگی کی بات نہیں کی گئی تھی مگر جب صاحب اقتدار نے اسے ماننے انکار کرتے ہوئے ان کے مینڈیٹ پر شب خون مارا تو وہ چھ نکات علیحدگی میں تبدیل ہوگئے ہم نے بھی خدشہ ظاہر کردیا تھا کہ اگر سنجیدگی کی یہی روش برقرار رہی تو ان چھ نکات کو بلوچستان کے عوام مجیب الرحمان کے نکات میں تبدیل کردینگے انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر مالک سمیت کبھی بھی کوئی وزیراعلیٰ صوبے کا اصل مالک نہیں رہا موجودہ صوبائی حکومت کو بھی اختیارات حاصل نہیں اور اگر انہیں کوئی اختیارات حاصل ہیں تو بلوچستان میں جاری کشت و خون کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ ظالمانہ اور جارحانہ رویوں نے بلوچستان کو آج اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے کے بعد ان کے قلعے پر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا اس طرح کے رویوں نے نفرتوں میں اضافہ کرتے ہوئے حالات کو مزید خراب کیا جس کے باعث قتل و غارت گری کا بازار بلوچستان کی سر زمین پر گرم ہے ہم نے کبھی بھی آباد کاروں کے قتل کو سپورٹ نہیں کیا اور ہمیشہ ہر فورم پر اس کی مذمت کی مگر ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ایسے حالات کن بنیادی وجوہات کے باعث پیدا ہوئے نواب اکبر خان بگٹی 80 سال کی عمر میں بھی سیاست کررہے تھے اور شہادت سے قبل انہوں نے مذاکراتی کمیٹیوں سے بات بھی کی مگر ان کے گھر پر حملے کئے گئے جس کے بعد ان کے پاس صرف پہاڑوں پر ہی جانے کا راستہ باقی رہ گیا تھا انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے ہم ریاستی ظلم کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ اگر ریاست اور اس کے ادارے ہی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کے واقعات میں ملوث ہوگی تو پھر درخواست کس سے کی جائے ریاست اپنی ذمہ داری کا ادراک کرے اور ظلم جبر کے سلسلے کو ترک کرے ورنہ خود کو دہشت گرد قرار دیدے تاکہ ہمارا کوئی بھی گلہ باقی نہ رہے انہوں نے کہاکہ تین سرداروں کے نام آج ریاست اور میڈیا کی زبانوں پر چپکے ہوئے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ جو سردار ہمیشہ سے حکومتوں کیساتھ رہے ان کے علاقوں میں کیوں پسماندگی ہے بہتری پہلے گھر سے لائی جاتی ہے جو سردار ہمیشہ سے سرکار کی جی حضوری کرتے رہے ان کے علاقوں کو تو سہولیات فراہم کی جاسکتی تھیں انہوں نے کہاکہ غیر منصفانہ رویوں کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈیرہ بگٹی سے نکالی گئی گیس پنجاب کے بھٹوں اور فیکٹریوں تک تو پہنچ گئی مگر بلوچ کی جھونپڑی تک نہیں پہنچ سکی انہوں نے کہاکہ اگر ریاست نے اب بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہ کیا تو حالات مزید خراب ہونگے۔