حالیہ حکومت کی توجہ صحت اور تعلیم کے علاوہ زراعت کی ترقی پر بھی ہے ۔ زراعت بلوچستان کی معیشت کا شہہ رگ ہے ۔ تقریباً اسی فیصد یا اس سے زائد آبادی کا انحصار زراعت اور زرعی پیداوار پر ہے ۔ باقی تمام شعبے صرف بیس فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرتے ہیں ان میں سرفہرست ماہی گیری ‘ گلہ بانی اور معدنیات ہیں ‘ بہر حال بلوچستان کی ترقی اور لوگوں کے خوشحالی کا تعلق زراعت کی ترقی پر ہے ۔ یہ سب سے امید افزاء بات ہے کہ زراعت کے شعبے میں زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ ریسرچ اسکالرز ہیں بہ نسبت محکمہ تعلیم کے ‘ گورنر اویس احمد غنی نے زراعت کے ایک ریسرچ محکمہ کو بلوچستان یونیورسٹی کے حوالے کیا ۔ ابھی بھی محکمہ زراعت کے پاس کافی تعداد میں پی ایچ ڈی اور ریسرچ اسکالرز ہیں جو بلوچستان کے لئے امید کی کرن ہیں کہ وہ بلوچستان کو جلد غذائی معاملات میں خود کفیل بنائیں گے۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں بلوچستان غذائی پیدوار میں خود کفیل نہیں ہوسکا۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی اور ضروری وسائل کا فقدان تھا۔ دوسری وجہ بلوچستان میں پانی کی قلت خصوصاً آبپاشی کیلئے ۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق بلوچستان میں تقریباً دو کروڑ ایکڑ زرخیز زمین کاشت کاری کے لئے موجود ہے اور حکومت کو ان کی آباد کاری کے لئے پانی کا انتظام کرنا چائیے ۔ پہلا تو پانی کا ذریعہ دریائے سندھ کا نظام ہے ۔ دریائے سندھ سے پٹ فیڈر اورکیر تھر کینال کو پانی مل رہا ہے ۔ 1991ء میں صوبوں کے درمیان نہروں کی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا جس کے ذریعے بلوچستان کو دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے مزید ساٹھ ہزار کیوسک پانی ملنا تھا۔ آج دن تک 2014ء تک پانی نہیں مل سکا۔ اس اضافی پانی کا استعمال سندھ اور پنجاب میں ہورہا ہے کیونکہ پانی کو استعمال میں لانے کیلئے بنیادی ڈھانچہ وفاقی حکومت نے 24سالوں میں تعمیر نہیں ہونے دیا یا ان کے لئے ضروری وسائل مہیا نہیں کیے ۔ 24سالوں بعد کچھی کینال کا پہلا فیز امید کے ساتھ اس سال دسمبر میں مکمل ہوگا جس سے بگٹی قبائلی علاقے کی صرف 55ہزار ایکڑ زمین آباد ہوگی ۔ کچھی کینال کے منصوبے کے مطابق یہ نہر بلوچستان میں سات لاکھ بیس ہزار ایکڑزمین آباد کرے گا ۔ 24سالوں میں صرف 55ہزار ایکڑ زمین کی آباد کاری کے انتظامات ہورہے ہیں ۔ صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سینکڑوں کی تعداد میں تمام دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرے ۔ یہ چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم ہوں ۔ چیک ڈیم نہ ہوں ‘ کیونکہ دنیا بھر میں چیک ڈیم کا نظام مکمل ناکام ہوچکا ہے ۔ البتہ افسران اور سیاست دان روپیہ پیسہ کمانے کے لئے چیک ڈیم بنانے کا منصوبہ بنائیں تو ان کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ چیک ڈیم سے زراعت کی ترقی نا ممکن ہے ۔ اس لئے صوبہ سینکڑوں کی تعداد میں پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم بنائے جس سے زیادہ سے زیادہ زمین آباد ہو ۔ سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سیلابی پانی بحرہ عرب میں گرتا ہے ۔ آزاد ماہرین معاشیات کیمطابق 60لاکھ ایکڑفٹ سے زیادہ پانی سمندر میں گرتا ہے اگر ہم اس کا ایک حصہ بھی زراعت ‘ اور دوسری ضروریات کے لئے زیر استعمال لائیں تو بلوچستان میں یہ انقلاب سے کم نہ ہوگا۔ بلوچستان نہ صرف غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہوگا بلکہ یہ خطے کیلئے غذائی اجناس اور فروٹ باسکٹ بن سکتا ہے اور پورے خطے کی ضروریات پوری کرسکتا ہے ۔ زراعت کی ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔ صوبائی حکومت کو چائیے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی امداد حاصل کرے اور بلوچستان کو غذائی اجناس کے پیداوار میں خود کفیل بنائے ۔