بی بی سی لندن کی خفیہ تحقیقاتی ٹیم نے ایسی دکانوں اور تاجروں کی نشاندہی کی ہے جو چوری کے سمارٹ فونوں کا کاروبار کرتے ہیں۔
یہ تحقیق ان خفیہ اطلاعات کے بعد عمل میں آئی جن میں کہا گیا تھا کہ مشرقی لندن میں کئی دکانیں چوروں سے فون خریدنے کے لیے تیار تھیں۔
فلم میں ایسے دو تاجروں کو دیکھا گیا ہے جو اس بارے میں تحقیق کرنے والے ایک ایسے شخص سے چوری شدہ سام سنگ ایس تھری اور آئی فون فور خریدتے دکھائے گئے ہیں جو چور کے روپ میں ان دکانوں پر گیا تھا۔
دکھائے جانے والی دکان نے اس بارے میں بیان دینے سے انکار کیا ہے۔
جب ایسے غیر قانونی کاروبار کے بارے میں معلوم ہوا تو اس معاملے کی تحقیق کے لیے آٹھ سمارٹ فون قانونی طور پر حاصل کیے گئے۔ ہر سمارٹ فون میں تصاویر، پس منظر اور کانٹیکٹس ڈالے گئے اور ان میں ملائی گئی کالز اور بھیجے گئے پیغامات بھی دکھائے گئے۔ اس کے بعد ان سب کو بلاک کر دیا گیا اور ان کے نیٹ ورک پر ان کی چوری کی خبر دی گئی۔
چور کے بھیس میں محقق نے پھر ان فونز کو سکرین پر اس پیغام کے ساتھ بھیج دیا: ’ یہ موبائل چوری شدہ ہے اور یہ فون اب لاک ہو چکا ہے۔ آپ کے بارے میں اب حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔‘
اس کے بعد اس محقق نے یہ فون الفرڈ میں موجود لندن موبائل لمیٹڈ کو بیچنے کی پیشکش کی اور کہا ’یہ میں نے خریدا نہیں ہے۔ میں نے چوری کیا ہے؟‘ جب انہیں سکرین پر موجود پیغام دکھایا گیا تو دکاندار ہنسا اور بولا ’یہ چوری کا ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔‘
مگر اس کے باوجود انہوں نے پیسے کے بدلے بظاہر چوری کا فون خرید لیا۔
قریب ہی موجود آسک موبائل اور سیون کنگز میں موجود کمپیوٹرز نے بی بی سی سے چار چوری شدہ موبائلز خرید لیے اور بھیس میں موجود محقق نے دکان سے 40 پاؤنڈ کما لیے۔
یہ سب اس کے باوجود ہوا کہ محقق نے دوسری ملاقات میں واضح کیا کہ ’ ہاں بھائی میں نے دو اور فون چرائے ہیں۔‘
دکان میں کام کرنے والے ایک شخص نے تو انہیں گرفتاری سے بچنے کا حل بھی بتایا۔ اس نے کہا ’ارے تم پاگل ہو۔ فون بند کر دو ورنہ وہ اس سے تم کو ٹریک کر سکتے ہیں۔‘ اور مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’ اس میں سم کارڈ موجود ہے ۔ اس سم کو پھینک دو۔‘
بی بی سی نے یہ فلم میٹروپولیٹن پولیس کے فلائنگ سکواڈ کے سابق کمانڈر جان و کونر کو دکھائی۔ ان کا کہنا تھا ’لوگ چوری کے فون کو اس قدر بہادری اور اعتماد سے استعمال کر لیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے چوری کی واردات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مجھے تو یہ نہایت حیران کن لگتا ہے۔‘
ان تمام چورری شدہ فونز میں ’فائنڈ مائی فون ‘ کو ایکٹویٹ کیا گیا تھا اور اصولاً ان کے آئی ایم ای آئی نمبرز کا مطلب ہے کہ اگر انہیں چوری شدہ قرار دے دیا گیا ہو تو انہیں کھولا نہیں جا سکتا۔
مگر ایسینشل فورینسکس کے گرانٹ رولی نے بی بی سی کو دیکھایا کہ کس طرح صرف ایک لیپ ٹاپ کی مدد سے ان فیچرز کو توڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک فون کو نیا آئی ایم ای آئی نمبر دے دیا جسے اسے بالکل عام طریقے سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
اور فون کی پہلے سے موجود سافٹ وئر کو بحال کرنے سے ’فائنڈ مائی فون‘ کے حفاظتی تدبیر ختم ہو جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ صبح کو چوری ہونے والے فون شام کو ایک پہلے سے استعمال شدہ فون کی صورت میں بازار میں بک رہا ہوتا ہے۔‘
اس سلسے میں سام سنگ اور ایپل نے کوئی بیان نہیں دیا۔
بی بی سی کو کل آٹھ ایسی دکانوں سے معلومات ملیں جو چوری کے سمارٹ فون کا کاروبار کرتی ہیں اور اس سارے مسئلے کی اصل قیمت صرف وہی جانتے ہیں جن کا راہ چلتے فون عوری ہو چکا ہو۔
ایلکس کوسٹن رونالڈسن پچیس سال کے مارکیٹنگ مینیجر ہیں جنہیں کلیپ ہیم کے علاقے میں لوٹا گیا۔ اس واقعے کے بعد سے وہ ذہنی صدمے کا شکار ہوئے ہیں۔
انہیں آج بھی یاد ہے کہ حملہ آور اچانک ایک بڑی سے چھری لے کر آیا اور کہنے لگا ’ مجھے اپنا فون دو ورنہ میں تمھیں مار دوں گا۔ ‘ اچانک کہیں سے پانچ اور لوگ آ گئے اور میں رونے لگا۔ اس لیے اب میں رات کو سڑک پر اکیلا نہیں چل سکتا۔‘