|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2014

جب ڈانا سنے کو معلوم ہوا کہ اس کے والد اپنے دفتر کے خلاف مقدمہ جیت گئے ہیں اور انھیں بھاری رقم ملنے والی ہے تو اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اس کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔ اس کے والد امریکی ریاست میامی کے گلیور پریپریٹری سکول کے خلاف مقدمہ جیت چکے تھے جس نے انھیں زیادہ عمر ہونے کی بنا پر ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔ فیس بُک پر اپنے 1200 دوستوں کے لیے ڈانا کا پیغام بڑا واضح تھا: ’امی اور پاپا نےگلیور کے خلاف مقدمہ جیت لیا ہے۔ میں گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے یورپ جا رہی ہوں اور اس کے تمام اخراجات گلیور ہی اٹھائے گا۔‘ مقامی اخبار ’میامی ہیرالڈ‘ کے بقول اس گھرانے کی بچی اتنی زیادہ ڈینگیں نہ مارتی تو انھیں مقدمے میں جیتی ہوئی ساری رقم ( 80,000) سے ہاتھ نہ دھونا پڑتے۔ جب سکول کو یہ بھنک پڑی کہ ڈانا نے فیس بُک پر یہ خبر عام کر دی ہے تو گلیور سکول نے ڈانا کے والد کو رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ فیصلے کی شرائط کے مطابق ڈانا کے والد پابند تھے کہ وہ معاضے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ بدھ کو میامی کی ایک عدالت نے سکول کے حق میں فیصلہ دے دیا اور ڈانا کے والد کو فیصلے کی شرائط سے روگردانی کا مرتکب پایا۔ اس واقعے کی بنیاد پر کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے آج کل کے لڑکے اور لڑکیاں اپنی بیوقوفی میں سوشل میڈیا پر نجانے کیا کیا لکھتے رہتے ہیں اور اس کا خمیازہ والدین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک بلاگر ایلی مِسٹل نے اپنے بلاگ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’ اس صدی کی نسل کیا کیا گل کھلا رہی ہے۔‘ ’ایک وقت تھا کہ آپ کو صرف اس بات کی فکر ہوتی تھی کہ آپ کی بیٹی فیس بُک پر اپنی برہنہ تصاویر نہ لگا دے لیکن ’اب تو حالات مذید خراب ہو گئے ہیں۔‘ ڈانا اور اس کے والدین کے کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ڈانا کے والد میامی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف ریاست فلوریڈا کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ یہ مقدمہ جتنی زیادہ دیر لٹکتا رہے گا اس رقم میں کمی ہوتی رہے گی جو ڈانا کے والد کو ملنا تھی۔ اگر ڈانا کے والدین عمر بھر کے لیے اس کی چھٹیوں پر پابندی نہیں بھی لگاتے، تو تب بھی غالب امکان یہی ہے کہ ڈانا بیچاری اپنی چھٹیاں یورپ کی بجائے گھر کے قریب ہی گزارے گی۔