|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2014

بلوچستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو سالوں سے نظر انداز کیاگیا ہے ۔ حکومت بس مالکان کے رحم و کرم پر عوام الناس کو چھوڑ دیا ہے ۔ وہ جو مرضی ہے مسافروں سے سلوک کریں۔ کوئٹہ میں مقامی بس سروس کے خلاف بہت زیادہ عوامی شکایات ہیں ۔ حکومت ان شکایات پر توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ ان شکایات میں وقت کا ضیاع ‘ کرایوں میں روز افزوں اضافہ ‘ اوور لوڈنگ‘ پرانی اور خستہ حال بسیں ‘ بس کنڈیکٹر اور ڈرائیوروں کی غنڈہ گردی شامل ہیں ۔ سریاب سے شہر کے وسط تک بس گھنٹوں میں سفر مکمل کرتی ہے جب کہ یہ سفر آدھ گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ڈرائیور انتہائی سست رفتاری یا رش کے اوقات میں تیز رفتاری میں ملوث ہیں ۔ اگر کوئی مسافر احتجاج کرے تو کنڈیکٹر اور ڈرائیور مل کر اس کی سرعام پٹائی کرتے ہیں ۔ ان کی بے عزتی کرنا عام بات ہے ۔ اس میں پولیس اور ٹریفک پولیس کوئی کردار ادا نہیں کرتی ۔ حیرانگی کی بات ہے کہ اتنے خستہ حال بسوں کو کیوں اور کون فٹنس سرٹیفیکٹ جاری کرتا ہے ۔ ان تمام بسوں کے روٹ پرمٹ منسوخ ہونے چاہئیں کیونکہ یہ انسانی زندگی کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ۔ان کے بریک اور بس کی پوری مشینری قابل اعتبار نہیں ہے ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بس کے مالکان مقامی معتبرین اور قبائلی اثرورسوخ رکھنے والے لوگ ہیں ، وہ اپنی بسوں کو خود نہیں چلاتے ۔ بعض نے اپنی بسوں کو ٹھیکہ پر دے رکھا ہے ۔ ٹھیکے دار زیادہ تر افغان ہیں جن کا روایات ‘شرافت اور رواداری سے کوئی تعلق نہیں۔ اکثر مشکوک شخصیات کے مالک ہیں یا جرائم پیشہ ہیں ۔ ان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ جس کو چاہے ماریں اور ان کو ذلیل کریں اگر انہوں نے یہ شکایت کی کہ بس سست رفتاری سے چل رہی ہے، بس اسٹاپ پر کافی دیر سے کھڑی ہے ،کنڈیکٹر نے زیادہ کرایہ طلب کیاتو ان تمام صورتوں میں احتجاج کی صورت میں مسافروں کے ساتھ بد تمیزی تو اپنی جگہ بلکہ ان کی پٹائی بھی ہوسکتی ہے ۔ آج تک یہ راز معلوم نہ ہو سکا کہ ٹریفک پولیس کا رویہ ان غنڈہ عناصر کے خلاف نرم کیوں ہے ۔ ان کے خلاف بھرپور کارروائی کیوں نہیں ہوتی ہے ۔ شاید مشکل وقت میں معتبرین مالک درمیان میں آجاتے ہیں اور آناً فاناً امتیازی سلوک کا بہانہ بناتے ہیں وہ اپنے جرائم پیشہ کنڈیکٹر اور ڈرائیور کو قابو نہیں کرتے کہ مسافروں کی عزت کرو اور ان کا خیال رکھو ۔ ان سے بدتمیزی مت کرو جبکہ دوسری جانب پولیس‘ مجسٹریٹ کے سامنے وہ قبائلی معتبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پولیس اور مجسٹریٹ سے مراعات طلب کرتے ہیں اور وہ انہیں مل جاتا ہے۔ پہلے تو حکومت خستہ حال بسیں بحق سرکار ضبط کرے ۔ ان کے روٹ پرنٹ منسوخ کرے اور ان پر بھاری جرمانے عائد کرے اور اس میں کسی کو کوئی رعایت نہ دی جائے ۔ ان کے ساتھ سختی کا سلوک کیا جائے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت پبلک ٹرانسپورٹ میں مناسب سرمایہ کاری کرے ۔ اپنا کمپنی بنائے اور سرفہرست پہلے تو سرکاری بسیں لوکل مسائل حل کریں اور لوگوں کے لیے آمد و رفت میں آسانی پیدا کریں ۔ دس لاکھ سے زائد انسانوں کو غنڈہ عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں ۔ سرکاری بسوں سے لوگوں کی وقت کی بچت ہوگی ۔ خصوصاً سرکاری ملازم اور طلبہ وقت پر اسکول اور دفاتر پہنچ سکیں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی کم ہوگا شہر میں ذاتی گاڑیوں اور رکشوں سے جان چھوٹ جائے گی ۔ کچھ سال تک حکومت یہ بس کمپنی چلائے اور بعد میں نجی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت کردے جب حالات معمول پر آجائیں ۔ آخری مشورہ یہ ہے کہ حکومت بلوچستان فوری طورپر وزارت ریلوے سے رابطہ کرے اور ریلوے حکام کو مجبور کرے کہ وہ سریاب سے ائیر پورٹ تک شٹل ٹرین چلائے جس سے وقت کی بچت ہوگی ٹریفک جام کا مسئلہ حل ہوگا ۔ لوگوں کو قابل اعتبار اور سستا ذریعہ سفر مل جائے گا۔