|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2014

کراچی (ظفراحمدخان) کراچی ایئر پورٹ کے قریب شاہراہ فیصل پر ناتھا خان پل کے قریب جیونیوز کے سینئر اینکر پرسن حامدمیر کی گاڑی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی۔ جس کے نتیجہ میں حامد میر شدید زخمی ہوگئے۔ فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس اور کشیدگی پھیل گئی جبکہ شاہراہ فیصل پر کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔کراچی میں شاہراہ فیصل پر ایئر پورٹ آؤٹر سگنل کے قریب دہشت گردوں نے سینئرصحافی اورجیونیوزکے اینکرپرسن حامدمیرکی کار پر اندھا دھند فائرنگ کر دی اور فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجے میں کار میں سوارجیونیوز کے سینئر اینکر پرسن اور معروف صحافی حامد میر شدید زخمی ہوگئے۔ زخمی کو فوری طور پر آغا خان اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ فائرنگ کے باعث شاہراہ فیصل پر کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں اور بھگدڑ مچ گئی، علاقے میں کشیدگی و خوف و ہراس پھیل گیا، شاہراہ فیصل پر جزوی طور پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی۔ موقع پر موجود افراد نے بتایا ہے کہ ایک ملزم ائر پورٹ آؤٹر سگنل کے قریب ائر پورٹ سے نرسری کی جانب جانے والی سڑک پر لوہے کی گرل کے قریب پہلے سے کھڑا تھا، حامد میر کی کار جیسے ہی ائر پورٹ آؤٹر سگنل کے برج کے نیچے سڑک عبور کر کے نرسری کی طرف مڑی ہی تھی کہ مذکورہ ملزم نے اچانک کار کی بائیں جانب آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، اس دوران موڑ کی وجہ سے حامد میر کی کار کی رفتار آہستہ تھی، کار پر فائرنگ ہوتے ہی پہلے کار کی رفتار مزید سست ہوگئی اور پھر ڈرائیور نے رفتار بڑھا دی اور زخمی حامد میر کو لے کر آغا خان اسپتال پہنچ گیا۔ذرائع کے مطابق فائرنگ کرنے والے ملزم کے دو ساتھی موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ جو حامد میر کی کار کا تعاقب کرتے ہوئے ایئر پورٹ کی جانب سے انکی کار کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے، واردات کے بعد ملزم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موٹر سائیکل پر فرار ہوگیا۔ذرائع کاکہناہے کہ واردات کے دوران ملزم کے پستول کے ایک میگزین کی گولیاں ختم ہوگئیں۔ دوسرا میگزین پستول میں لگایا اور دوبارہ بھی فائرنگ شروع کردی۔ پولیس ذرائع کے مطابق حامد میر کی گاڑی کا ایئر پورٹ سے تعاقب کرنیوالے ہنڈا 125موٹر سائیکل پر سوار دو ملزمان نے ایئر پورٹ آؤٹر سگنل پر موقع ملنے پر انکی کار پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔ ملزمان نے واردات میں نائن ایم ایم پستول اور 30بور پستول بھی استعمال کیا ہے۔ پولیس کو جائے وقوع سے خالی گولیوں کے کئی خول ملے ہیں جنہیں فارنسک ٹیسٹ کیلئے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کے بیک اپ پر ایک سنہری رنگ کی کار بھی تھی جس میں مسلح افراد سوار تھے۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق حامد میر کو تین گولیاں لگی ہیں ۔جن میں سے دو کاندھے پر اور ایک پیٹ میں لگی ہے ۔ انکی حالت خطرے سے باہر ہے۔واقعہ کے وقت حامد میر کار میں پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔ حامد میر ہفتہ کی شام کو اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے اور ایئر پورٹ سے اپنے دفتر کی جانب جا رہے تھے۔جبکہ دوسری جانب جیو نیوز اور حامد میر کے بھائی نے آئی ایس آئی کوحملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ فوج کے ترجمان نے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے صحافی حامد میر پر ہونے حملے کی مذمت کرتے ہوئے آزاد انکوائری کمیشن کا مطالبہ کیا ہے۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملہ کا ذمہ دار قرار دینا ’افسوسناک‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔ نیوز چینل جیو نے الزام عائد کیا ہے کہ حامد میر نے جنگ انتظامیہ، اپنے خاندان اور حکومت کے کچھ لوگوں کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ جنرل ظہیر السلام اس کے ذمے دار ہوں گے۔ جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے عامر میر نے کہا کہ ان کے بھائی حامد میر نے انہیں بتایا تھا کہ آئی ایس آئی نے ان کے قتل کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ دریں اثنا پاکستان کے سینیئر صحافیوں نے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے چیف ایڈیٹر ایم ضیاء الدین کے مطابق میڈیا اداروں کے مالکان بے حس اور کاروبار کے نام پر بک چکے ہیں۔ ’ہمارے ادارے پر کئی بار حملے ہوئے مگر ان کی رپورٹنگ اس طرح کی گئی کہ جیسے کسی اور جزیرے پر یہ واقع ہوا ہو۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے صحافی اداروں میں اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ صحافیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس واقع کے بعد میڈیا متحد ہو پائیگا۔’اب بھی دیکھ لیں اے آر وائی نے جیو کے حوالے سے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔ تو یہ تھوڑے دن تک بات چلے گی۔‘ عامر میر کے مطابق حامد میر نیکمیٹی تو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کرا رکھا ہے جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر السلام اور کچھ کرنل رینک کے افسران کو نامزد کیا ہے۔ جذباتی انداز میں جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے عامر میر کا کہنا تھا کہ ’حامد میر کو دہشت گردوں سے زیادہ آئی ایس آئی سے خطرہ تھا، جس کی وجہ بلوچستان کے مسئلے اور پرویز مشرف کے حوالے سے اختلاف رائے تھا۔ یہ اختلافات آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کے دور سے تھے۔‘ اس سے قبل کراچی پولیس کے چیف شاہد حیات نے جیو نیوز کو بتایا کہ حامد میر کے ساتھ ایک محافظ بھی موجود تھا لیکن ان کی گاڑی پر حملہ اتنا اچانک ہوا کہ وہ بھی کچھ نہ کر سکا۔ شاہد حیات کے مطابق حامد میر اس وقت آغا خان ہسپتال میں موجود ہیں اور انھیں بتایا گیا ہے کہ جسم کے نچلے دھڑ میں تین گولیاں لگی ہیں اور انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس چیف کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کو حامد میر کی کراچی آمد کے بارے میں پہلے سے ہی علم تھا اور وہ ان کے منتظر تھے۔ پولیس چیف کے مطابق حملے میں دو موٹر سائیکل اور ایک کار استعمال کی گئی۔ حامد میر کے ڈرائیور نے جیو نیوز کو بتایا کہ وہ ایئرپورٹ سے باہر سڑک پر آئے تو موڑ پر گاڑی کی رفتار کم ہو گئی اور اس دوران سفید کپڑوں میں ملبوس موٹر سائیکل سواروں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے پستول سے فائرنگ کی۔ ڈرائیو نے بتایا کہ انھوں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی لیکن حملہ آور پیچھا کرتے رہے۔ جیو نیوز کے مطابق حامد میر سنیچر کو اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے اور ایئرپورٹ سے جب ناتھا خان پل کے قریب پہنچے تو ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ جیو نیوز کے مطابق فائرنگ کے بعد حامد میر نے جیو نیوز اسلام آباد کے بیورو چیف رانا جواد سے بات کی اور انھیں خود پر ہونے والے حملے کے بارے میں اطلاع دی۔ جیوز نیوز کے مطابق ’حامد میر خود گاڑی سے اتر کی ایمبولینس میں سوار ہوئے۔‘ ایک ماہ پہلے ہی صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے اینکر پرسن اور بلاگر رضا رومی کی گاڑی پر فائرنگ سے ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے سال 2012 میں بھی اسلام آباد میں حامد میر کی گاڑی میں بارودی مواد نصب کیا گیا تھا جسے بعد میں ناکارہ بنا دیا گیا۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین، وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر حملے کی مذمت کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی حامد میر پر کراچی میں ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لیے بدترین ملک قرار دیا جاتا ہے جہاں صحافیوں کو کسی قانونی گرفت کے خطرے سے بالاتر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ روں سال بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ساں فرنٹیئرز کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں طالبان اور فوج دونوں ہی صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور منتخب حکومت ان دونوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔