|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2014

انڈیانا: ایف بی آر کی جاری فہرست میں لاکھوں ایسے نام شامل ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے جبکہ لاکھوں ٹیکس دینے والوں کے نام غائب ہیں۔ ایف بی آر کی جاری فہرست کے مطابق 2013 میں پاکستان میں 774706 افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر یہ اعداد درست نہیں۔ اس فہرست سے صرف ایف بی آر کی محدود صلاحیت عیاں ہوتی ہے ناں کہ ٹیکس دینے یا نہ دینے والوں کی معلومات ۔یہ ڈیٹابیس 2013 میں ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے صرف فیڈرل انکم ٹیکس کو کور کرتا ہے یا ایسے جن کے ودہولڈنگ ایجنٹ نے تفصیلات جمع کرائی ہیں، اس میں ایسے لوگ شامل نہیں ہیں جن کے انکم ٹیکس اداروں نے ان کی تنخواہوں سے منہا کرلیے(ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہے جن کی اداروں نے انفرادی ٹیکس ریٹرن جمع کرائی) اور ایسے بھی جن لوگوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائی۔ ایف بی آر اور وزارت خزانے کے بہت کم حکام ایسے ہونگے جن کو لسٹ شائع ہونے سے قبل ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے حوالے سے واضح معلومات ہونگی۔ اس میں 7 لاکھ سرکاری افسر بھی شامل نہیں ہیں جو تمام کے تمام ٹیکس دیتے ہیں مگر ریٹرن فائل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرلز اور ججز کے نام سامنے نہیں آتے۔ ٹیکس دینے اور ٹیکس ریٹرن فائل کرنے میں یہی اہم فرق ہے، دونوں قانونی ضروریات ہیں۔ صرف ریٹرن فائل نہ کرنیوالوں کو ٹیکس نادہندہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ٹیکس نہ دیتے ہوئے ٹیکس دہندہ بننا بھی ممکن ہے اور جعلی دستاویزات جمع کرائی جاسکتی ہیں اور ایف بی آر کا نظام اس قابل نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو پکڑ سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ زیادہ ٹیکس ڈکلیئر کریں اور کم ادا کریں۔ ایف بی آر کا نظام ایسی جعل سازی کو پکڑنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ ڈیٹابیس میں ہزاروں ایسے نام ہیں جن کے سامنے ادا شدہ ٹیکس صفر لکھا ہوا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ٹیکس نادہندہ ہیں، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کمپنی کو نقصان ہوا ہو، کمپنی کو ٹیکس استثنیٰ ہو، انفرادی طور پر کسی کی آمدنی قابل ٹیکس ہی نہ ہو۔ ڈیٹابیس میں جی ایس ٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹیز کی ادائیگی کی تفصیلات بھی شامل نہیں ہے۔ انکم ٹیکسز کی بنیاد پر سرکاری آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی کمپنی ہے جس نے 2013 میں 37 ارب روپے جمع کرائے اور اگر جی ایس ٹی اور ایف ای ڈی کو بھی شامل کیا جائے تو پاکستان ٹوبیکو کمپنی پہلے نمبر پر آتی ہے جس نے گزشتہ سال 61 ارب روپے جمع کرائے۔