تقریباً پاکستان کی اہم ترین سیاسی پارٹیوں ‘ انسانی حقوق کے اداروں اورسول سوسائٹی نے یکسر تحفظ پاکستان بل کی زبردست مخالفت کی ۔ قومی اسمبلی میں حکومت نے اپنی ظالم اکثریت کا سہارا لیتے ہوئے اس کو بل ڈوز کیا اور اس کو عجلت میں پاس کرایا ۔ جس پر احتجاجاً حزب اختلاف نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور یہ ثابت کیا کہ حکومت غیر جمہوری طرز عمل سے اس بل کو پاس کرانا چاہتی ہے مگر سینٹ میں صورت حال مختلف ہے ۔ وہاں پر حزب اختلاف کی اکثریت ہے ۔ حزب اختلاف کے ستر کے قریب ووٹ ہیں جہاں پر حکومت کو یہ بل پاس کرانا مشکل ہوگا۔ دوسری جانب پی پی پی نے اس بل میں ترامیم کے مطالبات براہ راست وزیراعظم کو دئیے جب آصف علی زرداری اور نواز شریف کی پچھلے دنوں ملاقات ہوئی تھی جس میں جمہوری اداروں کو مزید مستحکم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس میں یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ تحفظ پاکستان بل کو ’’ نرم‘‘ کیا جائے گا۔ اس میں سے سخت اور انتہائی تلخ شقوں کو حذ ف کیا جائے گا۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت پی پی پی کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی اور سیکورٹی اداروں کے مسلسل دباؤ میں رہے گی ۔ سیکورٹی اداروں کو موجودہ سیکورٹی صورت حال سے بہت زیادہ پریشانی ہے خصوصاً گمشدہ افراد اور سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں اغواء شدہ افراد کے حوالے سے۔ بعض اداروں کی جانب سے اغواء شدہ لوگوں کو قید میں رکھنے کے عمل کو قانونی جوازدینے کے لئے تحفظ پاکستان بل پیش کیاگیا ہے جس کو عوام میں پذیرائی نہیں ملی بلکہ اس کی مخالفت زیادہ شدت سے ہورہی ہے وہ بھی اس اسپرٹ کے ساتھ کہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے یہ قانون بنایا جارہا ہے ۔ مسلم لیگ خود کو جمہوری پارٹی گردانتی ہے مگر دباؤ میں آ کر مسلم لیگ کی حکومت بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنا چاہتی ہے کل مسلم لیگ والے اپوزیشن میں ہونگے تو ان سے بد ترین سلوک روا رکھا جاسکتا ہے ۔ اس لئے حکومت کو چائیے کہ وہ رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے بل واپس لے اور اپوزیشن کی مشاورت سے نیا قانون بنائے ۔ سیکورٹی اداروں کی مشاورت سے قانون سازی کا حشر حکومت نے دیکھ لیا ۔ حکومت اور حکومتی ارکان کی سبکی ہوئی اور ان کو عوام الناس کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اس کے برعکس حکومت اور حکومتی اراکین اغواء شدہ افرادکو بازیاب کرنے کے لئے سیکورٹی اداروں پر دباؤ ڈالیں۔ اگر مسلم لیگ اپنے آپ کو ایک جمہوری اور عوامی نمائندہ پارٹی سمجھتی ہے تو ا ن کو موجودہ پالیسی ترک کرنا ہوگی اور اغواء شدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا ہوگا کیونکہ وہ مظلوم ہیں، ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ پاکستان کے قوانین میں کسی کو جبراً اغواء کرنا اور اس کو قید میں رکھنا غیر قانونی ہے ۔ انسانیت کے خلاف جرم ہے بلکہ خفیہ جیل خانوں کا قیام بھی غیر قانونی ہے ۔ قانون کے مطابق تمام قانونی جیل خانے عدالت کے ماتحت ہیں ، حکومت کے ماتحت نہیں ۔ لہذا خفیہ قید خانے غیر قانونی ہیں۔ آج نہیں تو کل متعلقہ افراد کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ لہذا حکومت ان تمام غیر قانونی اقدامات کو قانونی جواز دینے کی کوشش نہ کرے جس سے حکومت اورمسلم لیگ کے رہنماؤں کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتاہے ۔ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کو افراد سزا نہیں دے سکتے ، اس کو صرف اور صرف عدالت سزا دے سکتی ہے ۔ حکومت کو چائیے کہ وہ ان تمام معاملات پر دوبارہ غور کرے اور اپوزیشن کی مشاورت سے نیا قانون بنائے یا موجودہ بل میں دوررس ترامیم کرے تاکہ عوام الناس کو نیا قانون قابل قبول ہو ۔ بہر حال عوام الناس پر سرکاری اہلکاروں کی بالادستی ختم کی جائے اور ان کے تمام جمہوری حقوق بحال کیے جائیں۔