کوئٹہ (رپورٹ / مرتضیٰ زیب زہری) محکمہ واسا صوبائی دارالحکومت کے 70فیصد آبادی کو پانی فراہمی میں ناکام ، شدید مالی بحران سے دو چار محکمے کے پاس ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈز موجود نہیں ، ماضی میں خورد برد کے واقعات کے باعث موجودہ صوبائی حکومت اس ادارے کو فنڈز کی فراہمی میں مسلسل تاخیر کررہی ہے ، محکمہ کیسکو نے بلز کی عدم ادائیگی کے باعث شہر کے متعدد ٹیوب ویلوں کے کنیکشن منقطع کردئیے ، سابق صدر (ر)جنرل پرویز مشرف کے خصوصی اسکیم کوئٹہ گریٹر واٹر اینڈ سینی ٹیشن منصوبے کے تحت شہر کے مختلف علاقوں میں اربوں روپے کی لاگت سے پائپ لائنیں بچھائی گئی مگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کئے گئے ، غیر قانونی ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے باعث کوئٹہ اور نواح میں زیر زمین پانی کی سطح 1000سے 1200فٹ تک پہنچ گیا ، محکمہ واسا کے پاس 22خشک ٹیوب ویلوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے منصوبے کے لیے رقم موجود نہیں ، ٹینکر مافیہ اور محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے شہر میں مہنگے داموں پانی فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے،شہریوں کو پانی کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ، عوامی حلقوں نے پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کو پانی کی فراہمی جس ادارے کی ذمہ داری ہے وہ صرف کوئٹہ کے 30فیصد آبادی کو پانی فراہم کررہی ہے جبکہ 70فیصد آبادی ترسیل آب کی سہولت سے یکسر محروم ہے شہر کے علاقوں سریاب روڈ، بروری روڈ، نواں کلی ، پشتون آباد، سیٹلائٹ ٹاؤن ، کلی قمبرانی ، سبزل روڈ، رئیسانی روڈ، سرکی روڈ ، کاسی روڈ، ہدہ منو جان روڈ، جیل روڈ، ہزارہ ٹاون ، اسپنی روڈ، جوائنٹ روڈم ریلوے کالونی علمدار روڈ، طوغی روڈ سمیت اندرون شہر متعدد علاقوں میں گزشتہ کئی سالوں سے پانی کی عدم فراہمی کا سلسلہ جاری ہے شہریوں نے روزنامہ ’’روزنامہ آزادی ‘‘کے ایک سروے کے دوران شہریوں محمد ایوب ، عبداللہ ، محمد علی ، فاطمہ بی بی و دیگر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کوئٹہ کو پانی کی فراہمی اور سیوریج سسٹم کی بحالی پر اربوں روپے خرچ کئے گئے اس منصوبے کے لیے محکمہ واسا اور کوئٹہ گریٹر واٹر اینڈ سینی ٹیشن پروجیکٹ کے حکام نے صرف شہر کے اکژیتی علاقوں میں صرف پائپ لائنیں بچھائی ’’مگر یہ بندوبست نہیں کیا ہے ان پائپ لائنوں نے پانی کہا سے آئے گئی‘‘ کیونکہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز کی تعمیر کے لیے غیر موثر منصوبے بنائے گئے شہریوں کے مطابق شہر میں پرائیویٹ سطح پر پانی غیر قانونی ٹیوب ویلوں کی تنصیب نے رہی سہی کسر بھی پوری کرلی حالانکہ ضلعی انتظامیہ اور واٹر بورڈ کی جانب سے شہر میں مزید ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر پابندی عائد کی گئی ہے مگر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری ہے ماہرین ارضیات کے مطابق کوئٹہ میں غیرقانونی ٹیوب ویلوں کے باعث زیر زمین پانی کی سطح سالانہ 10سے 15فٹ نیچے جارہی ہے جو کہ خشک سالی کے واضح اشارے ہیں واضح واسا نے شہر میں 22خشک ٹیو ب ویلوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے منصوبہ بنایا تھا مگر تاحال اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا واساء زرائع کے مطابق ادارہ شدید مالی بحران سے دوچار ہے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی محکمے کے پاس فنڈز موجود نہیں ہے عوامی حلقوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان و دیگر اعلیٰ حکام مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہر میں پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں ۔