اسلام آباد: فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے چھاپہ مارکر بلٹ پروف گاڑیاں بنانے والی ایک موٹر ورکشاپ کو سیل کرکے تین افراد کو گرفتار کرلیا۔
ایک ایف آئی اے افسر کے مطابق سیکٹر الیون ای میں واقع اس ورکشاپ کو ایک نجی کمپنی چلا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چھاپے کے وقت ورکشاپ میں ایک ایس یو وی اور ایک فور بائی فور ٹرک کو بلٹ پروف بنایا جارہا تھا۔
گرفتار ہونے والوں میں کمپنی کے محمد احسان اور ان کے دو پارٹنرز ریاض حسین اور جمیر احمد شامل ہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے انعام غنی نے ڈان کو بتایا کہ ورکشاپ کا انکشاف اس وقت ہوا جب وزارت داخلہ کو کراچی میں ایک شکایت موصول ہوئی جس میں ایک بلٹ پروف گاڑی سے متعلق نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) کی توثیق کرنے کا کہا گیا تھا۔
تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ وزارت داخلہ میں اشفاق نامی ایک سیکشن افسر جعلی این او سی جاری کرنے میں ملوث تھے جس کے لیے وہ ایک لاکھ دس ہزار روپے چارج کرتے تھے۔ اشفاق گرفتاری سے بچ گئے تاہم ان کا کمپیوٹر ضبط کرلیا گیا ۔
غنی نے ڈان کو بتایا کہ کمپیوٹر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اشفاق اب تک 29 جعلی این او سی جاری کر چکے تھے اور سیکٹر الیون ای میں واقع کمپنی بھی انہی میں شامل تھی۔
غنی کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کے ایک اسپیشل یونٹ سے جاری ہونے والے این او سی کے علاوہ اسے کہیں اور سے حاصل کرنا غیر قانونی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں صرف آٹھ ایسی کمپنیز ہیں جنہیں بلٹ پروف گاڑیاں بنانے کا لائسینس دیا گیا ہے۔
امیر ترین افراد کے لیے بھی بلٹ پروف گاڑیوں کو درآمد کرواکر خریدنا مشکل ہے اس لیے پرانی گاڑیوں کو بلٹ پروف بنانے سستا آپشن سمجھا جاتا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ حکومت لوگوں کو گاڑیاں درآمد کرنے کے لیے مجبور نہ کرے بلکہ اس طرح کے ورکشاپس کو قانونی حیثیت دے دینی چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے تاہم اگر کوئی شخص اپنی سیکورٹی کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو حکومت کو اس کا ساتھ دینا چاہیئے۔