|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2014

وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ اگلے تین سالوں میں بلوچستان کے تمام اہم شہروں کو قدرتی گیس پہنچائی جائے گی ۔ نواز شریف کو یہ شدید احساس ہے کہ بلوچستان سے پیدا ہونے والی گیس کو ملک کے انتہائی دور دراز علاقوں تک پہنچایا گیا مگر بلوچستان کے اہم ترین شہروں کو گیس کی فراہمی سے محروم رکھا گیا بلکہ جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ہے ۔ کوئٹہ جو صوبے کا دارالخلافہ ہے اس کو 1980کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے گیس کی سہولت فراہم کی ۔ وہ بھی فوج کے زبردست مطالبے کے بعد ۔ کویت ڈویلپمنٹ فنڈ نے اس کے لئے وسائل فراہم کیے ۔ اس کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ مستونگ ‘ زیارت اور پشین کو بھی گیس کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ تنگ نظر اور انتہائی متعصب افسران نے مستونگ اور پشین کو اتنی چھوٹی سی پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی کہ اس کو مزید علاقوں تک نہ پہنچایا جا سکے ۔ اس کے بعد قلات کو گیس سپلائی کی گئی، جب باری سوراب اور قلات کی آئی تو افسران اور فیصلہ کرنے والوں نے صاف انکار کیا کہ وہ سوراب اور خضدار کے لئے گیس کی فراہمی نہیں کریں گے۔ آج تک وہ تنگ نظر اور انتہائی متعصب افسران بضد ہیں کہ ان علاقوں کو کسی بھی قیمت پر گیس فراہم نہیں کی جائے گی ۔ بلکہ اس کا نعم البدل یہ نکالا گیا کہ سوراب اور نوشکی میں ایل پی جی پلانٹ لگائے جائیں گے ۔یہ عمل تو نوشکی میں شروع ہوچکا ہے اور لوگ ایل پی جی گیس استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کے ہر قصبے میں سوئی گیس ہے تو بلوچستان میں ایل پی جی کیوں؟ وفاقی حکومت گیس کی مد میں بلوچستان کا 120ارب روپے نہیں بلکہ 165ارب ڈالر قرض دار ہے ۔ کیونکہ گزشتہ 56سالوں میں سوئی گیس کو پیٹرول کے نعم البدل کے طور پراستعمال کیا گیا ہے ۔ اور اوسطاً حکومت پاکستان نے سالانہ تین ارب ڈالر صرف سوئی گیس استعمال کرکے بچائے ہیں ۔ لہذا وفاق 120ارب روپے نہیں 165ارب ڈالر ادا کرے ۔بلوچستان کو گیس کی پیداوار اور ترسیل سے متعلق بہت شکایات ہیں ۔ ان شکایات کا ازالہ کرنے کی بجائے گیس اور تیل کی کمپنیوں کو افراد کے ہاتھوں نیلام کیا جارہا ہے اور وہ بھی صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی کی مرضی کے بغیر ۔ ایک ادارہ 95ارب روپے سال میں منافع کماتا ہے اس کی نج کاری کی منطق عوام کی سمجھ سے باہر ہے ۔ پھر بلوچستان کے عوام کی مرگ و زیست کا تعلق گیس کی پیداوار اور اس کی آمدنی سے ہے ۔ انفرادی طورپر کوئی شخص بلوچستان کے حقوق اور اس کے مفادات کا نگران نہیں ہوسکتا ۔ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کے شوق میں وفاق اور صوبے کے درمیان مزید نفرت پھیلائے گا ۔ پھر 18ویں ترمیم کے بعد وفاق مکمل طورپر یہ اختیار نہیں رکھتا کہ وہ یک طرفہ طورپر اس کی نجکاری کرے ۔ ہم یہ جائز مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ پی پی ایل ‘ او جی ڈی سی اور سوئی سدرن کو بلوچستان کو دیا جائے ۔ حکومت بلوچستان فرد کے بجائے وفاقی مفادات کی بہتر نگرانی کرے گی۔ گزشتہ سالوں پی پی پی نے پی پی ایل کو ایک فرد کے ہاتھوں فروخت کرنے کی کوشش کی جس کو بلوچستان کے عوام کے ناکام بنایا ۔ اس کے ساتھ ہی سابق وزیراعلیٰ کی طرف سے یہ واضح بیان آگیا تھا کہ اگر بلوچستان کے جائز مفادات کے خلاف پی پی ایل کی نج کاری کی گئی تو حکومت بلوچستان سوئی گیس پر اضافی صوبائی ٹیکس نافذ کرے گا اور صوبے کی مکمل ریونیو اس ٹیکس سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر حکومت نے بلوچستان کے جائز مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ کیا تو اس کے خلاف شدید رد عمل سامنے آئیں گے جو وفاق کے لئے اچھا شگون نہیں ہوگا ۔ پہلے تو لوگ گیس پائپ لائن کی خود حفاظت کرتے تھے کیونکہ وہ اسے اپنی ملکیت سمجھتے تھے مگر حالیہ سالوں میں یہ نکتہ نظر تبدیل ہوگیا ہے اور بعض عناصر ان گیس پائپ لائنوں کواکثر نشانہ بناتے ہیں ۔