کراچی: سندھ اسمبلی نے صوبے کے مختلف شہروں میں طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور زرعی پانی کی قلت کے خلاف وفاقی حکومت کے خلاف قرارداد منظور کرلی پے۔
ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا کی سربراہی میں سندھ اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان صوبے میں طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف پھٹ پڑے۔ نواز چانڈیو نے کہا کہ وفاقی حکومت سندھ کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، سندھ حکومت بجلی کی غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ پر وفاق سے بھر پور احتجاج کرے، اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو صوبے بھر میں دھرنے دیئے جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد حسین نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کے معاملے پر وفاقی حکومت کے خلاف سخت قرارداد ایوان میں پیش کی جانی چاہئے۔
مسلم لیگ (ن) کے عرفان اللہ مروت کا کہنا تھا کہ ایک رکن کا کہنا ہے کہ شہبازشریف لوڈشیڈنگ کےخلاف جلوس نکالتے تھے، قائم علی شاہ جلوس نکالیں ہم ساتھ دیں گے، پتا چلے کہ لوڈ شیڈنگ ہوتی کیا ہے، جس پر سینیئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو نے ان کی پیشکش پر کہا کہ احتجاجی جلوس میں ابھی چلیں۔ کئی ارکان کی جانب سے ایک ساتھ بولنے پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں باری باری بولنے کی تلقین کی جب ارکان نہ مانے تو انہوں نے مائیک آپریٹر کو ان کی اجازت کے بغیر مائیک کھولنے سے روک دیا۔
اجلاس کے دوران سینئیر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے لوڈ شیڈنگ اور پانی کی کمی پر سندھ اسمبلی میں وفاقی حکومت کے خلاف قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایوان صدر اوروزیراعظم ہاوس بھی نا دہندہ ہیں ان پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی لیکن جو لوگ بجلی کا بل ادا کرتے ہیں انھیں چور کیا جاتا ہے اور ان کی بھی بجلی کاٹ دی جاتی ہےکیونکہ کچھ اور لوگوں نے بل نہیں دیا، انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے نمائندے ضرورہیں لیکن انہیں سندھ کے عوام کی تکلیف کا احساس ہے اور بجلی بند کرکے سندھ سے انتقام لیا جارہا ہے۔ لاہور میں لوگ شامیانے لگا کر احتجاج کرتے تھے لیکن ہم نے کسی کی بجلی نہیں کاٹی تھی اور جب سندھ میں احتجاج کیا جاتا ہے تو ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، بارہا درخواستوں اور احتجاج کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کی جارہی جس پر انھیں وزارت بجلی و پانی کے رویے پر شدید افسوس ہے۔ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا کہ سندھ ملک کو 70 فیصد گیس فراہم کرتا ہے، بجلی نہ دینے پر کیا سندھ گیس روک دے۔ سید سردار احمد نے کہا کہ مذمتی قرارداد سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ان کی نظر میں سندھ کا محکمہ واپڈا الگ ہونا چاہیئے ۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ بجلی ضرورت بن گئی ہے، بجلی کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے وہ غریب آدمی جو سارا دن محنت مزدوری کے بعد رات کو سو بھی نہ سکے کیسے زندہ رہے گا، پیپلز پارٹی کو بجلی بحران سے نمٹنے کے لئے مواقع ملے لیکن ہم نے کوئی کام نہیں کیا، حیقیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہی نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر کام کیا، بے نظیربھٹونے کے ٹی بندر پر پاور پلانٹ قائم کرنے کی کوشش کی، کیٹی بندر منصوبہ کس حکومت نے ختم کیا وہ ریکارڈ پر ہے۔ بجلی کے معاملے پر سندھ سے زیادتی کی گئی ہے حالانکہ اس کی قلت کی ذمہ دار سندھ حکومت نہیں، بجلی کی مد میں واجبات کے معاملے پر صوبے اور وفاق کے درمیان اختلافات ہیں اور یہ اختلاف نیا نہیں، گزشتہ وفاقی حکومت گو کہ پیپلز پارٹی کی تھی لیکن اس کے باوجود ہمارے ان کے ساتھ اختلافات تھے۔ جسے حل کرنے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں اس وقت کے وزیر بجلی و پانی اور وزیر قانون جبکہ سندھ حکومت کی جان سے وہ خود شامل تھے۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک میٹر ریڈر پر تو حکومت اعتبار کررہی ہے لیکن سندھ حکومت پر نہیں۔ حساب کتانب ہر ایک کے ساتھ ہونا چاہیئے تو یہی حساب کتاب سندھ کے ساتھ بھی ہونا چاہیئے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ کشمور میں انہوں نے پہلی مرتبہ وزیر مملکت عابد شیر علی کو کشمور میں دیکھا لیکن بات نہیں کی، اسی دوران انہوں نے وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف کو کہا کہ سندھ تمام واجبات دینے کو تیارہےلیکن اس سے پہلے کا جائزہ لینا ہوگا، بجلی کے واجبات نظرثانی کے بغیر نہیں دیں گے، ہمارے صوبے میں آمر کا کردار ادا کیا جارہا ہے کہ بس بجلی بند کردی جائے، وزیر اعظم کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے کیونکہ واجبات کی عدم ادائیگی پربجلی منقطع کرنے کےلئے غیر قانونی طریقہ اختیار کیا گیا، بجلی کاٹنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ بعد ازاں اسمبلی نے وفاقی حکومت کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔