وزیراعظم کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا جس میں ملک کے اندر مجموعی سیکورٹی کی صورت حال کے علاوہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مضبوط طرز عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اجلاس میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شریک ہوئے ۔ وزیرداخلہ نے اجلاس کو سیکورٹی کی صورت حال سے آگاہ کیا ۔ اجلاس کی یہ متفقہ رائے تھی کہ طالبان کے ساتھ صرف ایک خاص ایجنڈے پر اور دو ٹوک بات ہوگی ۔ اجلاس نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا کہ سیکورٹی افواج اور پولیس پر مسلسل دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں اور حکومت ان حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کرے گی ۔ پیر کے روز اجلاس میں حقیقی صورت حال کا جائزہ لیاگیا جس سے یہ عیاں ہوا کہ طالبان زیادہ سے زیادہ وقت لینا چاہتے ہیں اور اپنی پوزیشن زیادہ مستحکم کرنا چاہتے ہیں جس کی حکومت قطعاً اجازت نہیں دے گی اور نہ ہی دینی چائیے۔ ملک کے اندر رائے عامہ اس بات کے حق میں ہے کہ حکومتی رٹ ہر حال میں بحال کی جائے اور نجی ملیشیاء کا خاتمہ کیا جائے اگر ہو سکے تو بیرونی جنگجوؤں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی سرزمین چھوڑدیں اور پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہ کریں ۔ اشارے واضح ہیں کہ بعض جنگجو شام کا رخ کرنا چاہتے ہیں اگر وہ اپنی مرضی سے پاک سرزمین چھوڑ نا چاہتے ہیں تو حکومت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے ۔ اگر انہوں نے سیکورٹی افواج پر حملہ کیا یا کسی حملے میں شریک ہوئے تو ان کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چائیے ۔ یہ بات واضح ہے کہ طالبان کو وقت چائیے اور وہ اس وقت تک معنی خیز مذاکرات کو ٹالنا چاہتے ہیں تاوقتیکہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں اور پاکستانی طالبان اور افغانی طالبان دونوں مل کر کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیں اور طالبان کی حکومت قائم کریں ۔
ظاہر ہے کہ حکومت پاکستان اس گھناؤنے کھیل کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گا ۔اور نہ وہ پاکستانی طالبان کو یہ اجازت دے گا کہ پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ آور ہوں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بین الاقوامی برداری بھی اس کی قطعاً اجازت نہیں دے گی کہ بیرونی عناصر افغانستا ن پر حملہ کریں ۔ حکومت کا تختہ الٹ دیں اورحکومت پر قبضہ کریں تاکہ وہ پورے خطے کے لئے ایک ناسور بن جائیں ۔حکومت پاکستان کا رویہ بالکل منصفانہ ہو کہ وہ اپنی سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دے گا اور اس سے پہلے کہ پاکستانی طالبان افغانستان پر حملہ آور ہوں، پاکستان کے مسلح افواج ضرور کارروائی کریں گے اورایسی تمام کوششوں کو ناکام بنائیں گے جس سے ملک کی بدنامی ہو اور پاکستان پر یہ الزام لگے کہ اس نے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ طالبان سے معنی خیز مذاکرات کیے جائیں ۔ ان کے تمام مطالبات تسلیم کیے جا سکتے ہیں اگر وہ دہشت گردی کو نہ صرف چھوڑ دیں بلکہ اعلانیہ اس کی مذمت کریں اور ہتھیار پھینک دیں۔ اگر وہ پاکستان میں اسلامی امارت قائم کرنا چاہتے اور لوگوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ سیاسی اور جمہوری عمل کا حصہ بنیں اور لوگوں کا قتل عام بند کریں ۔ شاید حکومت کا نکتہ نظر بھی یہی ہے کہ طالبان کو مجبور کیاجائے کہ وہ نجی فوج کا خاتمہ کریں اور ایک عام اور پر امن شہری کی طرح زندگی گزاریں ۔ ورنہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ طاقت کا بھرپور استعمال کرے ۔