|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2014

آج سے کوئی دو ہزار تین سو برس پہلے 336قبل مسیح میں سکندر اعظم شام ‘ عراق‘ ترکی اور ایران کوفتح کرنے کے بعد تین ہزار پیادوں اور پانچ ہزار سواروں پر مشتمل اپنی فاتح افواج کے ساتھ جب برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوا تو اسے بتا یا گیا کہ وہ ایک ایسے علاقے سے گزر رہا ہے جسے ’’ ہیروں کی وادی‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ سن کر اس نے اپنے پیادوں کو حکم دیا کہ وہ اس وادی کا پتہ لگائیں اور جتنے ہیرے مل سکیں انہیں اکٹھا کر لیں ۔ چنانچہ تھوڑی ہی تلاش کے بعد سپاہیوں نے ایک بڑے غار کا پتہ لگایا جس کے اندر بے شمار ہیرے بکھرے پڑے تھے لیکن اس غار کی حفاظت چند اژدھے کررہے تھے ۔ جن کی آنکھوں کی تیز اور زہریلی روشنی سے سامنے والا آدمی فوراً بے ہوش ہو کر مرجاتا تھا۔ یونانی سپاہیوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ غار سے واپس لوٹ آئے اور اپنے ساتھ آئینے لے کر دوبارہ وہاں پہنچے اور آئینوں کے ذریعے جب روشنی کو سانپوں کی طرف منعکس کیا تو وہ ان کی تیز روشنی اور اپنے ہی عکس کو آئنو ں میں دیکھ کر مر گئے ۔ سکندر کے سپاہیوں نے ہیروں کا خزانہ اٹھا کر اپنے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا ۔ اگرچہ یہ ایک کہانی سی معلوم ہوتی ہے لیکن قرین قیاس ہے کہ سکندر اعظم بھی اسی بین الاقوامی سہ را ہے (سیندک) کے ذریعے بر صغیر کے اس خطے میں داخل ہوا تھا اور اسے یہیں کہیں ہیروں کی وادی ملی تھی جسے آج ’’ سیندک‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اورجہاں ایک کھرب روپے سے زائد مالیت کے سونے ‘ چاندی اور تانبے کی کانیں دریافت ہوئی ہیں ۔ اس طرح اسے سونے کی وادی کا نام دے کر یہاں پرحکومت پاکستان نے چالیس کروڑ امریکی ڈالر کی لاگت سے ’’ سیندک مربوط معدنیاتی منصوبے ‘‘ کے نام سے بلوچستان کی تاریخ میں سب سے بڑا ،پاکستان میں دھاتوں کی ترقی میں اپنی نوعیت کا پہلا اور اسٹیل مل کے بعد دوسرا اہم اور عظیم تر پروجیکٹ شروع کیا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قیمتی دہاتوں کے ذخائر صرف سیندک کے ڈھائی مربع کلو میٹر وادی تک ہی محدود نہیں بلکہ یہاں سے 35میل مشرق میں کوہ دلیل اور وشکین کے علاوہ زیارت ‘ پیر کوہ سلطان اور دربن چاہ میں بھی کافی مقدار میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ تحقیقی ماہرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچستان کا سرحدی ضلع چاغی قیمتی معدنیات کے لحاظ سے دنیا بھر کی اہم اور پہلی پٹی ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ انہی ماہرین کی حالیہ تحقیق کے مطابق وادی زردکان ‘ جھلی ‘ بھوتگ‘ چاہ ‘ اور توتک کے مقامات پر سبز سنگ مرمر کے خوبصورت پتھر۔ امیر چاہ ‘ کوہ حسینی ‘ مشکی چاہ ‘ پاجن کوہ اور چکن رک میں خام لوہے ۔ دالبندین کی پہاڑیوں میں گرینائیٹ ‘ سیندک کی وادی میں سونا ‘ چاندی اور تانبے کے کافی ذخائر موجود ہیں ۔ اس طرح اگر پورے ضلع چاغی کو’’ سونے کی وادی ‘‘ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔یہاں سے بیس میل شمال میں موجودہ کوہ سلطان میں بھی جابجاپانی کے چشمے توموجود ہیں لیکن زیر زمین گندھک کی موجودگی کے سبب یہاں کا پانی پینے کے قابل نہیں ۔1939ء میں پہلی مرتبہ انگریز میجر آر ‘ ایچ ‘جی نے کوہ سلطان میں گندھک کے ذخائر دریافت کیے اور 1940سے 1944تک گندھک کی ان کانوں کی سرسری کھدائی سے تقریباً 84لاکھ ٹن صاف گندھک دریافت ہوا۔ جن سے بم بنا کر جنگ عظیم کے دوران جرمنی ‘ جاپان اوراٹلی کے خلاف استعمال کیا گیا اور یوں برطانیہ کو فتح مل گئی ۔ یہاں کے پہاڑ ،خزانوں کی آماجگاہ بریگیڈئیر جنرل ڈائر جس نے آج سے تقریباً پون صدی قبل اس سرحدی علاقے میں فوج کشی کے دوران وادی ‘ وادی اورقریہ قریہ گھوم کر اس خطے کو چان مارا تھا اس لئے اس نے اپنی ڈائری میں جہاں دوسری دلچسپ باتوں کا ذکر کیا ہے ۔ وہاں وہ دنیا کے قیمتی اور نایاب پتھر سنگ مر مر کی موجودگی کی یوں پیشن گوئی کرتا ہے ۔ رباط کے قریب پہاڑوں میں کچاؤ چوکی کے قرب و جوار میں سال کے خاص موسموں میں زبردست طغانی آتی ہے اور پانی کا تیز دھار ان چٹانوں کے کناروں کو اس طرح چٹیل کردیتا ہے کہ دھوپ میں وہ پالش کردہ رنگ برنگے سنگ مرمر کی طرح چمکنے لگتے ہیں ان کے کٹاؤ میں ایسے حجرات کی بہتات ملتی ہے جو کسی وقت کستورے‘ مچھلی ‘ اور کیکڑے وغیرہ رہے ہوں گے۔ ڈائر کا یہ قیاس اب حقیقت بن چکا ہے کہ یہاں پر مشکی چاہ ‘ زردکان ‘ جھلی ‘ بھوٹگ‘ زہے اور توتک کے علاوہ دیگر مقامات پر سبز رنگ کے خوبصورت سنگ مرمر کے ایسے بڑے بڑے پہاڑ دریافت کیے گئے ہیں جن سے اب تک لاکھوں ٹن سنگ مرمر نکالا گیا اور اس طرح نہ صرف ان پہاڑوں کے مالکوں کی معاشی و اقتصادی حالت میں انقلابی تبدیلی آگئی ہے بلکہ ان سے وابستہ صنعت کار بھی ارب پتی اور شہنشاہ بن گئے ہیں ۔ اس طرح حکومت کو بھی ان معدنیات سے سالانہ کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے ۔ ایک وہ بھی وقت تھا کہ حکومت پاکستان کو بانی پاکستان کے مزار کے لئے سنگ مرمر کا پتھر کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں تھا اور اب ایک یہ بھی دور ہے کہ پاکستان کے ہر خاندان کے گھر میں سنگ مرمر کی کوئی نہ کوئی صناعی موجود ہے یہاں تک کہ اکثر سرمایہ داروں کے محل سنگ مرمر کے دل فریب و دلکش پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں ۔ مگر یہ افسوس کا مقام ہے کہ معدنیات کا عجائب گھر کا خطاب پانے والا آج چاغی آج اکیسویں صدی میں پسماندگی اور درماندگی کی مسخ شدہ تصویر بنی ہوئی ہے ۔اسی چاغی نے کھربوں ٹن وزنی آگ ایٹم بم کو اپنے سینے میں چھپا کر، آج تک سرزمین چاغی جل کر خاکستری کا منظر پیش کررہی ہے ۔ اور کئی کئی نئی بیماریوں کی ایک وباء چاغی میں پھیل چکی ہے ۔ چاغی کے ذخائر جو سیندک کی صورت میں یا ریکوڈک کی صورت میں یا دیگر معدنیات کی شکل میں ہوں ان سے بالا دست طبقہ ہی فیض یاب ہورہا ہے ۔ مگر وسائل کا مالک بلوچ آج بھی ننگے پاؤں اور بھوکے پیٹ اپنی سرزمین پر ایک اجنبی کی صورت میں اسی وہم و کشمکش میں ہے کہ آیا یہ سرزمین میری اپنی ہے یا آنے والے نوواردوں کی؟