پشاور: جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ فریق مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگارہےہیں،ایسی صورت میں ہمیں مذاکرات سے الگ ہونا پڑےگا۔
پشاور میں منعقدہ قبائلی جرگے سے خطاب کے دوران مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ملک کو درپیش جنگ کا براہ راست تعلق قبائلی علاقوں سے ہے اور قبائل کے تمام مشائخ و ملکان اس مذاکراتی عمل کی پشت پر ہیں، انہوں نے کہا کہ برطانوی سامراج نے برصغیر سمیت دنیا کے کئی علاقے میں اپنا راج قائم کیا تھا لیکن وہ قبائلی علاقوں میں اپنا تسلط نہیں جما سکا۔ پاکستان پر جب بھی نازک وقت آیا تو ملک کے دفاع کے لئے یہی قبائل سب سے آگے تھے۔ ملک کے دشمنوں سے جنگ لڑنے والے ہاتھ قبائل کے ہیں لیکن یہ علاقہ 65 سال کے بعد بھی پارلیمنٹ اور عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے
مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جاری جنگ حق بجانب ہے۔ انہیں اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کا حق ہے لیکن پاکستان کو اس جنگ میں ملوث کیا گیا، بدترین آمریت کے دور میں ہم کافر دشمنوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے جس کے نتیجے میں پورا قبائلی علاقہ تباہ ہوگیا، وہ تمام سیاسی جماعتیں جو آج امریکی خوشنودی کے لئے کام کررہی ہیں پہلے مذاکرات کے حق میں تھیِ۔ نہ ہم حکومت ہیں نہ فوج اور نہ ہی طالبان، ہم وہی کام کررہے ہیں جس کا فیصلہ پارلیمنٹ اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے کیا تھا لیکن سیاستدان اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکر حضرات ہماری حوصلہ افزائی کے بجائے مذاکرات پرتنقید کر رہے ہیں۔
جے یو آئی (س) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جنگ سےکامیابی ملتی توروس اور امریکا افغانستان میں کامیاب ہوجاتے، امریکا بھی بظاہر مذاکرات کی مخالفت نہیں کررہا، جب سے مذاکراتی شروع ہوئے ہیں ڈرون حملے بند ہوگئے ہیں، گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کے لئے امریکی صدر براک اوباما کا خصوصی ایلچی آیا جس نے مذاکراتی عمل کی تعریف کی لیکن سیاستدان اور اینکرز حوصلہ افزائی کے بجائے مذاکرات پر تنقید کر رہے ہیں۔ اب دونوں فریق مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگارہےہیں، ایسی صورت میں ہمیں مذاکرات سے الگ ہونا پڑےگا۔ وزیر اعظم نوازشریف کوچاہیئے کہ وہ قیام امن کے بعد غیرملکی دورے کریں۔