حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد ملک میں آزاد میڈیا کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ شروع ہوئی ہے ۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کی رپورٹنگ میں جیو ٹی وی نے حدود پھلانگ دی تھیں اور قیاس آرائی اور الزامات کی بنیاد پر فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس پر سماج کا ایک مضبوط طبقہ بہت زیادہ ناراض نظر آتا ہے اور وہ اس حد تک چلا گیا ہے کہ وہ لوگ جیو پر پابندی لگانے اور اسکی نشریات بند کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ وزارت دفاع نے پیمرا میں یہ شکایت درج کرائی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جیو کی نشریات بند کی جائیں ۔ دوسری جانب میڈیا کے بڑے بڑے اداروں خصوصاً اے پی این ایس اور سی پی این ای نے اس کی بھر پور مخالفت کی ہے اور حکومت کو ایسے اقدامات سے باز رکھنے کی تلقین کی ہے ۔ صحافت آزاد ضرور ہے مگر سرکاری سرپرستی میں ۔ اخبارات اور ٹی وی چینل یہ محدود آزادی استعمال کررہے ہیں حقیقی معنوں میں وہ آزاد نہیں ہیں ۔ بعض معاملات میں حکومت اطلاعات کی فراہمی کو برداشت نہیں کرتی اس کا برداشت کا مادہ زیرو ہے ۔ دوسری جانب میڈیا مالکان حکومت سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانا ہے اور آزادی اظہار ، آزادی صحافت اور عوال الناس کی دیگر آزادیوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دولت کی حوس نے ان کو بے حس بنا دیا ہے ۔ بہر حال یہ خطر ناک رحجان ہے کہ پورے میڈیا کی ایک ہی رائے ہو ۔ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید نہ کی جائے یہ طریقہ فوجی آمریت کی یاد دلاتا ہے خصوصاً جنرل یحییٰ خان جس کے دور میں پاکستان دوٹکڑے ہوگیا اور بنگلہ دیش بن گیا اور لوگوں کو یہ سب کچھ بعد میں معلوم ہوا کہ پاکستان ٹوٹ چکا ہے ۔ یحییٰ کی فوجی حکومت نے اخبارات پرپابندیاں لگائیں تھیں اور حکم دیا تھا کہ بنگال کے کشت و خون کی خبریں صرف سرکاری ہینڈ آؤٹ سے شائع کیے جائیں ۔ شاید پاکستان موجودہ دورمیں بنگلہ دیش کے بحران سے زیادہ بڑے بحرانوں میں پھنس چکا ہے ۔ ایسی صورت حال میں میڈیا پر پابندیاں لگانا یا کسی وجہ سے ایک چینل کو بند کرنا اور گروپ کے اخبارات کو نشانہ عقل مندی نہیں ہوگی ۔ وسیع پیمانے پر لوگوں میں ایسے اقدامات کی پذیرائی مشکل ہے بلکہ لوگ اس کے خلاف آواز بھی اٹھائیں گے۔ پاکستان میں سول سوسائٹی انسانی حقوق کے ادارے اور سیاسی پارٹیاں خاصی مضبوط ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کی مخالفت کریں جس کے ذریعے آزادی اظہار پر پابندیاں لگائیں جائیں ۔ چینل بند کرنا یا گروپ کے اخبارات کو نشانہ بنانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ اگر کسی نے قانون کے حدود پھلانگے ہیں تو ان کو قانون کے تحت سزا ملنی چائیے ۔ لوگوں کو اس بات کی بھی تسلی ہونی چائیے کہ حامد میر پر قاتلانہ حملے کے پیچھے اصل کرداروں کو بے نقاب کیا جائے ۔ مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ چونکہ ایک عدالتی کمیشن قائم ہوچکا ہے اور وہ اپنی کارروائیاں کررہا ہے لہذا یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کون اس قاتلانہ حملے کے پیچھے تھا اور قاتلانہ حملہ کرنے والے کون تھے؟ تاہم حکومت کو زیادہ احتیاط سے کام لینا چائیے اور یہ بات پیش نظر رکھنی چائیے کہ پاکستان کے دشمن ایسے معاملات کو بین الاقوامی طورپر استعمال کریں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت بہت زیادہ جارحانہ اقدامات نہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اور سماج میں زیادہ ہلچل پیدانہ کی جائے ۔