|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2014

1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں کی آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کیلئے جد و جہد بظاہر معاشی جدوجہد تھی لیکن اپنے جوہر میں یہ نظام کی تبدیلی کیلئے محنت کشوں کی تیاری تھی جس کا آغاز معاشی جدوجہد سے ہوا تھا ۔ 18گھنٹے کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے میں تبدیل کرنے سے محنت کشوں کو وہ وقت میسر آیا جس میں وہ اس نظام کے بارے میں سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کیلئے جدوجہد کے طریقہ کار وضع کرسکتے۔ کیونکہ سرمایہ دار طبقے کی یہ کوشش تھی کہ محنت کش جسمانی مشقت میں اتنے مصروف ہوں کہ وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں ۔ لہٰذا یہ ایک انقلابی جد وجہد تھی جس نے مزدور تحریک کو انقلاب کی جانب ایک قدم آگے بڑھایا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ عہد اچانک اور تیز ترین تبدیلیوں سے عبارت ہے ۔ جس میں کسی بھی لمحے تیز ترین تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔ کیونکہ یہ نظام اپنی فطری زندگی اور عمر پوری کرچکا ہے ۔ جس کے استرداد کا اظہار ہمیں مختلف واقعات ، جنگوں ، بیروز گاری ، غربت ، بیماری اور انتہا پسندی کے اُبھار میں نظر آتا ہے ۔ یہ تمام تر مسائل سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ، تاریخی متروکیت اور زوال کی محض علامتیں ہیں جو کسی بھی طرح انسانیت اور انسانی سماج کا مقدر نہیں۔ ہم ایسے عہد میں رہ رہے ہیں جب سرمایہ داری کے عمومی زوال کی وجہ سے مکمل روزگار ، مفت تعلیم و علاج اور امن و آشتی وغیرہ سب ماضی کے قصے دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلی دفعہ لوگ اور نوجوان بالخصوص اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی مایوسی اور ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہیں ۔ اس نظام پر براجمان حکمران طبقات اپنی ماضی کی روایات کے برعکس بے یقینی ، تذبذب اور قنوطیت کا شکار ہیں۔ کہا جا تا ہے کہ برطانوی سامراج اپنے عروج کے دور میں ، جب بر طانوی سامراج کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنی سلطنت اور نظام کو آگے بڑھانے کیلئے آنے والے کئ سالوں کی منصوبہ بندی کر تے تھے۔ وہ یہ سب اس لئے بھی کر سکتے تھے کیونکہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ترقی پسندانہ عنصر موجود تھا۔ اُ س میں سماج کو آگے لے جانے اور ترقی دینے کی صلاحیت موجود تھی۔ سرمایہ دار طبقہ باوصف اپنے تمام تر وحشت ، جرائم اور استحصال کے دنیا کے چند ممالک کو جاگیر دارانہ بندھنوں سے آزاد کر کے ایک جدید ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستیں بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کے ذہین ترین حکمران بھی (اگر کہیں موجود ہوں تو) کئ سال تو درکنار سو دن کی بھی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ ان کے نظام سے زندگی کی رمق ختم ہو گئی ہے ۔ اپنے نظام سے اُ ن کا اعتماد اُٹھ چکا ہے ۔ اب سرمایہ داری ترقی کی بجائے انسانی سماج میں تنزلی لارہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سماج اور ذرائع پیداوار کو ذاتی ملکیت اور ریاست کی تنگ حدود میں ایک خاص حد تک ترقی دی جاسکتی ہے ۔ اس حد کے بعد ذاتی ملکیتی نظام اور ریاست خود ذرائع پیداوار کی ترقی کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ بنتی ہے بلکہ اس کی بربادی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ جس کی اہم مثال جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم ہے جس کے دوران ذرائع پیداوار کا 50%سے زائد حصہ جنگ کے دوران بربا د ہوئے ۔ یعنی جس پیداواری ذرائع کو سرمایہ داری نے خود ترقی دی اور پروان چڑھایا ، اُ سی کو ہی برباد کر رہی ہے ، گویا ہیگل کے الفاظ میں دلیل عدم دلیل میں بدل گئی ہے۔ یوم مئی 2014ء پوری دنیا کے محنت کش ایسے وقت میں منا رہے ہیں جب عالمی پیمانے پر نظام زر میں کہرام اور کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ستمبر 2008ء کے مالیاتی زوال کے بعد بورژوازی سکتے میں ہیں ۔ بورژوا ماہرین معیشت موجودہ عالمی بحران کو اعتماد کی کمی وغیرہ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ اور اس مسئلے کو صرف اس نظام کے حدود میں تجزیہ کرتے اور ان کا حل پیش کرنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں ۔ پہلے پہل وہ اس بحران کو صرف امریکہ کے اندر صرف مالیاتی شعبے کا بحران قرار دے رہے تھے اور یہ کہ اس مالیاتی بحران کا صنعتی شعبے اور معیشت کے دوسرے حصوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن بعد میں یہ بحران امریکہ سے یورپ ، ایشیا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ اور اس بحران نے صرف مالیاتی شعبے کو ہی نہیں بلکہ معیشت کے سارے شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ تجزیہ مکمل طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے کہ یہ بحران صرف بینک کے نظام کا بحران ہے ۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی بحران اور اندرونی انتشار کا اظہار بینکو ں اور مالیاتی شعبے کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی طوائف الملوکی ، بے ہنگم پن اور انتشار کی وجہ سے اس طرح کے بحرانات وقفہ وقفہ سے ہر دور میں آتے رہتے ہیں اور یہ اس نظام کا خاصہ ہے ۔ جس طرح کمیو نسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس نے لکھا ، ’’ پچھلے بیسیوں برس سے صنعت اور تجارت کی تاریخ ‘ جدید پیدا واری قوتوں کی بغاوت کی تاریخ ہے ، بغاوت جدید تعلقات پیداوار کے خلاف اور ملکیت کے ان رشتوں کے خلاف جو بورژوا طبقے اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں ۔ اس سلسلے میں ان تجارتی بحرانوں کا نام لینا ہی کافی ہے جو برابر وقفے کے بعد لوٹ کر آیا کرتے ہیں اور پورے بورژوا سماج کی زندگی کو ہر بار پہلے سے بھی بڑے خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔ ان بحرانوں میں ہر بار صرف تیار مال کا ہی نہیں بلکہ پہلے کی بنی ہوئی پیداواری قوتوں کا بھی ایک بڑا حصہ برباد کردیا جا تا ہے ۔ ان بحرانوں میں گویا ایک وباء سی پھیل جا تی ہے ، فاضل پیداوار کی وبا ، جو پہلے کے تمام زمانوں میں ایک اَ ن ہونی سی بات معلوم ہوتی ‘‘ ۔ موجودہ عالمی بحران اسی مظہر کی غمازی کرتی ہے جس کی مارکس اور اینگلس نے 150سال قبل پیشن گوئی کی تھی ، یعنی زائد پیداوار کا بحران ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ذرائع پیداوار ، سائنس اور ٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کی جس کے نتیجے میں پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ لیکن اس پیداوار کی کھپت نہ ہونے سے بحران جنم لیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص طبقے میں یہ اشیاء خریدنے کی استطاعت ہوتی ہے جبکہ محنت کش طبقے کی قوت خرید سرمایہ دارانہ نظام کے شدید استحصال کی وجہ سے مسلسل کم ہو تی رہتی ہے ۔ جس کی وجہ سے زائد پیداوار کا بحران جنم لیتا ہے ۔ جس کو کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے مزید واضح کرکے یہ کہا کہ سرمایہ داری کا بحران صرف زائد پیداوار کا بحران نہیں بلکہ زائد پیداواری صلاحیت کا بحران ہے۔ مارکسی تجزیے کی رو سے آج انسانی سماج اور ذرائع پیداوار کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں دو ہیں ، پہلا قومی ریاست اور دوسرا ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت ۔ پہلی وجہ یعنی قومی ریاست کے کردار کو تو سامراجی سرمایہ دارانہ نظام خود ہی ختم کر رہا ہے ، قومی ریاست معاشی انتظام کے حوالے سے اب برائے نام رہ گئی ہے کیونکہ سامراجی یک طرفہ آزاد تجارت اور نیولبرل معاشی اصلاحات نے اس کے معیشت میں کردار کو کم سے کم کر دیا ہے ۔ گویا سرمایہ داری نے خود ہی اپنی پیداکردہ قومی ریاست کو اپنے منافع کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ لیکن دوسری اور سب سے اہم ، ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ، آج بھی انسانی سماج کی بقا ء اور ذرائع پیداوار کی ترقی میں اہم اور خطر ناک رکاوٹ ہے ۔ جو کسی بھی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ختم نہیں ہو سکتا ۔ آ ج کرہ اَرض پر ہونے والی جنگیں ، تبا ہ کن غربت ، بیماری ، بیروز گاری ، فضائی اور زمینی آلودگی اور عمومی انتشار نجی ملکیت کے نظام کی دین ہے۔ مٹھی بھر سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز انسانیت کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں ۔ اور دنیا کو اپنے منافع کی ہو س کے لئے تاراج کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اگر ان تمام قدرتی وسائل ، سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی کو اجتماعی ملکیت میں لے کر سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت چلایا جائے تو دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غربت ، بھوک ، افلاس اور بیروزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن سرما یہ دار ی کے اندر آج دولت کم سے کم ہاتھوں میں مر کوز ہو رہی ہے ۔ غریب ، غریب تر اور امیر ، امیر تر ہو تے جا رہے ہیں ۔ امارت اور غربت کے درمیان خلیج آج تاریخ کے کسی بھی دور کی نسبت سب سے زیادہ ہے اور ساتھ ہی دولت کی اتنی افراط رومی شہنشاؤں کے پاس بھی نہیں تھی۔ مندرجہ ذیل اعداد و شمار اس حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے گی :- دنیا کی آ دھی آبادی (یعنی تین اَرب سے زائد ) 2.5 ڈالر یومیہ پر گزارہ کرتے ہیں ۔ دنیا کی غریب ترین 40%آبادی کے پاس عالمی آمدنی (Global Income) کا صرف 5%حصہ موجود ہے جبکہ 20%امیر ترین افراد کے پاس دنیا کی مجموعی آمدنی کا 75%حصہ موجود ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق ہر دن 25000 بچے غربت کی وجہ سے مر جا تے ہیں ۔ تقریباً ایک اَرب افراد دنیا میں ایسے ہیں جنہیں کتاب پڑھنا اور اپنا نام لکھنا نہیں آتا ۔ ہر سال عالمی سطح پر جنگوں پر ہونے والے اخراجا ت کا صرف 1%سے بھی کم حصہ خرچ کرنے سے دنیا کے ہر بچے کو سکول بھیجا جا سکتا ہے ۔ پوری دنیا میں بیماریوں کے شکار بھی غریب افراد ہی ہیں ۔ عالمی سطح پر 40 ملین افراد ایڈز کا شکار ہیں جن میں سے 3ملین سال 2004ء میں مر گئے۔ ہر سال دنیا میں 350سے 500ملین افراد ملیریا کا شکار ہو جا تے ہیں جن میں سے ایک ملین ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ ملیریا کی وجہ سے ہونے والی اموات کا 90%حصہ افر یقہ میں وقو ع پذیر ہو تا ہے ۔ دنیا کی آدھی آبادی پانی کے مسئلے کا شکار ہے ۔ ترقی پذیر ممالک کی 1.1اَرب آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ 2005میں امیر ترین 20%آبادی نے دنیا کی Total Private Consumption کا 76.6% حصہ صرف کیا ، جبکہ غریب ترین 20%نے صرف 1.5%صارفیت کی۔ مختلف اجناس کی صارفیت میں غریب ترین 10%آبادی کا حصہ صرف 0.5%جبکہ امیر ترین 10%کا حصہ حیران کن حد تک 59%تھا۔ اس دور میں بھی انسانی آبادی کا 1.6اَرب بجلی کے بغیر زندگی گزارتے ہیں ۔ دنیا کی 41مقروض ترین ممالک کی مجموعی GDP، دنیا کے امیر ترین 7 افراد کی مجموعی دولت سے بھی کم ہے ۔ یہ نظام ایک وحشی اور غیر انسانی نظام ہے۔ لیکن اپنے عظمتوں کے دور میں چونکہ یہ انسانی سماج کو آگے بڑھا رہی تھی اس لئے اس کی وحشت پر اس کے ترقی پسند ا نہ کردار کا خول چڑھا ہوا تھا ، جس کی وجہ سے سر مایہ داری انسانی سماج کے لئے قابل قبول تھی ۔ لیکن اب سر مایہ داری ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہے اور اس کا ترقی پسند ا نہ کر دار بھی ختم ہو چکا ہے جو اب صرف وحشت اور بر بریت پھیلا رہی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ترجیحا ت پہلے بھی منافع خوری اور شرح منا فع تھی اور اب بھی یہی ہے ۔ لیکن اسی اثناء میں اسے اپنی تر جیحا ت کی تکمیل کے لئے انسانی سماج کو آگے بھی لے جا نا پڑا ۔ لیکن منافع خوری کی یہ ہوس اب اپنی انتہا ء کو پہنچ کر انسانی سماج کو بر با د کر رہی ہے ۔ جس کا اندازہ اس حقیقت سے ہو تا ہے کہ امریکہ میں کا سمیٹکس پر ہر سال 8 اَرب ڈالر ، یورپ میں آئس کریم پر 11 اَرب ڈالرسالانہ ، یورپ اور امریکہ میں پر فیوم (Perfume) پر سالانہ 12 اَرب ڈالر اور پالتو جانوروں کی خوراک پر ہر سال 17 اَرب ڈالر ، یورپ میں سگریٹ پر سالانہ 50اَرب ڈالر ، پوری دنیا میں ہر سال نار کو ٹکس ڈرگ (Narcotics Drugs) پر 400 اَرب ڈالر اور جنگی سازوسامان پر سالانہ 1100 اَرب ڈالر خرچ ہو تی ہے جس میں امریکہ کا حصہ 623اَرب ڈالر ہے ۔ ، جبکہ تمام ترقی پذیر ممالک میں مجموعی طور پر ہر سال بنیادی تعلیم کے حصول پر صرف 6 اَرب ڈالر ، افزائش نسل کے سلسلے میں خواتین کی صحت پر صرف 12 اَرب ڈالر سالانہ اور بنیادی صحت اور غذائیت کے لئے صرف 13 اَرب ڈالر سالانہ خرچ ہو تی ہے ۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار سرمایہ دارانہ نظام کی اصل روح کو سامنے لاتی ہے ۔ جن شعبوں پر اخراجا ت اور سرمایہ کاری زیادہ ہو رہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری اور اخراجات سے لاامتناہی منافع حاصل ہو رہی ہے ۔ جبکہ منشیات اور فوجی سازوسامان پر ہونے والے بڑے اخراجات سے یہ بات بھی ظاہر ہو تی ہے کہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سامنے دنیا کی تباہی ، ماحول اور انسانی صحت کی تباہی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ انہیں تو صرف اپنی شرح منافع میں اضافے سے غر ض ہے ۔ دوسری طرف عام لوگوں کے لئے صحت ، تعلیم اور علاج پر سرمایہ کاری کم منا فع بخش ہے ۔ جہاں یہ اعداد و شمار سر مایہ داری کے بے ہنگم پن ، انتشار اور غیر منصوبہ بندی کی غمازی کر تی ہے ، وہیں پر ہمیں ان وسائل کو سوشلسٹ خطوط پر چلانے کے لیے منصوبہ بند سوشلسٹ نظام اور سماج کی ضرورت اور امکانا ت بھی نظر آتے ہیں ۔1871ء میں پیرس کمیون کی بغاوت ، 1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں کی 18گھنٹے کے اوقات کار کو 8گھنٹے کر نے کی لا زوال جدو جہد اور سب سے بڑھ کر 1917ء کے بالشویک انقلاب نے اس حقیقت پر مہر ِ تصدیق ثبت کر دی تھی کہ اب انسانی سماج کو سرمایہ دارانہ خطوط پر چلایا نہیں جا سکتا ، کیونکہ اس سے صرف بربادی اور انتشار ہی آسکتا ہے جو انسانی تہذیب کی تمام حاصلات کو ہی نیست و نابود کرکے رکھ دے گی ۔ بعد کے واقعات نے اس تناظر کو مزید واضح کر دیا۔ موجودہ حالات کامریڈ ایلن وڈز کے الفاظ میں Sharp and sudden changes (تیز اور اچانک تبدیلیاں) سے عبارت ہے ۔ ستمبر 2008ء کے مالیاتی زوال نے دنیا کے محنت کشوں کے شعور پر اہم اثرات مرتب کئے اور ان کے شعور نے جست اور چھلانگیں لگانا شروع کر دی ہیں ۔ لوگوں نے اب ایسے نظام کے وجود پر سوالات اُٹھانا شروع کر دیئے ہیں جو تباہی کے کارنامے سر انجام دینے والوں کو انعامات سے نوازتے ہیں ۔ حالیہ مالیاتی بحران نے پوری دنیا میں محنت کشوں کے پہلے سے مجتمع شدہ غم و غصے کو اظہارکا موقع فراہم کر دیا ہے ۔ اور وہ پوری دنیا میں احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں دائیں بازو کی نوازحکومت کے آنے کے بعد محنت کشوں پر حملے مزید تیز ہو گئے ہیں ۔ ملک میں معاشی زوال اور بیروزگار ی نے محنت کشوں کو کیا کم اذیّت دی ہے کہ اُن پر مذہبی جنونیت اور خود کش حملہ آوروں کو بھی مسلط کر دیا گیا ہے۔ حکمران ریا ست کے کچھ حصے اس وجہ سے بھی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ ذرائع ابلاغ میں ان جنونیوں کو اُچھال کر محنت کشوں میں خوف کی نفسیات کو جنم دے سکیں تاکہ وہ کسی انقلابی تحریک کی جانب نہ جا سکیں ۔نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ دراصل محنت کشوں کے خلاف جنگ ہے۔ نواز حکومت نے 65اداروں کی نجکاری کا اعلان کر دیا ہے ۔یوم مئی 2014ء اس لحاظ سے بھی پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ ریڈیکل ہو گی کہ حالیہ مالیاتی زوال نے پوری دنیا کے محنت کشوں کے شعور کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ اس زوال کے دوران پوری دنیا میں بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔ لاکھوں محنت کشوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ 1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جدوجہد سے 8گھنٹے کے اوقات کار کو حاصل کیا ۔ لیکن آج بھی محنت کش 18گھنٹے ڈیوٹی کر نے پر مجبور ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی جگہ پر اسی طرح قائم ہے ۔ اس لئے محنت کشوں کو اب اپنی توپوں کا رُخ کسی انفرادی سرمایہ دار یا جاگیر دار کی بجائے اس نظام کی طرف کرنا ہو گا ۔ جو ایک مستقل حل کو جنم دے گی۔ ہمارے اسلاف نے تاریخ میں بڑی بڑی سلطنتوں اور سامراجی قوتوں کو شکست فاش دی ہے ۔ آج بھی ہم محنت کش بلا تفریق رنگ ، نسل ، مذہب ، زبان اور قوم کے طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوکر اس نظام کو شکست دے کر اس ظالمانہ اور غیر انسانی سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دیکر ایک سوشلسٹ نظام قائم کر کے دم لیں گے ۔ جو تمام استحصال ، غربت ، بیماری ، جہالت، پسماندگی ،بیروزگاری اور طبقات کا خاتمہ کر کے انسانیت کو ترقی کی معراج دے گی۔